ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں-مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کی خصوصی تربیت نے شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس علیہ السّلامکا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایک دن مولاءے کائنات حضرت علی علیہ السّلام عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔ عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔ عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا با عث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس علیہ السّلامنہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔
جنگ صفّین اور حضرت عبّاس علمدار-
حضرت علی علیه السلام نے حضرت عباس علمدار کی تربیت و پرورش کی تهی۔ حضرت علی علیه السلام سے انهوں نے فن سپه گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجه اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقه حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وه ثانی حیدر کهلانے لگے۔ حضرت عباس علیه السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکهتے تهے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے هوئی تهی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بهبود کے لئے خاص طور پر مشهور تهے۔ اسی وجه سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل هوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ هے جو ان کے روحانی کمال کی بهترین دلیل هے۔ وه اپنے بهائی امام حسین علیه السلام کے عاشق و گرویده تهے اورسخت ترین حالات میں بهی ان کا ساته نهیں چهوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساته وابسته هوگیا هے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شهنشاهِ وفا هے ۔
جنگ صفین حضرت علی علیه السلام اور شام کے گورنر معاویه بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی 657 ء میں هوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیه السلام نے حضرت علی علیه السلام کا لباس پهنا اور بالکل اپنے والد علی علیه السلام کی طرح زبردست جنگ کی حتیٰ که لوگوں نے ان کو علی هی سمجها۔ جب علی علیه السلام بهی میدان میں داخل هوئے تو لوگ ششدر ره گئے ۔ اس موقع پر علی علیه السلام نے اپنے بیٹے عباسؑ کا تعارف کرواتے هوئے کها که یه عباسؑ هیں اور یه بنو هاشم کے چاند هیں۔ اسی وجه سے حضرت عباس علیه السلام کو قمرِ بنی هاشم کها جاتا هے۔ مروی ہے کہ ابو الشعثاء نے انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں نکل کر رجز خوانی کرتے ہوئے نکلا اور کہا: اے نوجوان تم نے میری پوری اولاد کو قتل کیا خدا کی قسم میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہاری عزا میں بٹھا دوں گا۔ چنانچہ لڑا اور مارا گیا اور جب یہ نقاب پوش نوجوان واپس لشکرگاہ میں آیا تو امیرالمؤمنین علیه السلام نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹایا اور سب نے دیکھا کہ وہ عباس بن علی علیه السلام تھے۔
شائد علی علیہ السّلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں وپریشاں اور گریہ کناں حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام-لشکر حسینی کا علمبردار قمر بنی ہاشم-ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ شدید پیاس کے عالم میں جانے کس ادا سے علم اٹھایا کہ علم کا نام سنتے ہی بے ساختہ غازی عباس علیہ اسلا م کا نام گرامی ذہن میں آتا ہے- غازی، جری، شیر ،پیکر ایثار ، باوفا، سقہ سکینہ ، حسین علیہ اسلام کی ہمت ، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس ،عباس علمدار علیہ اسلام ہیں
جب اطفال کربلا پیاس کے سبب ناله و زارى کررہے تهے، تب عباس علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت طلب کرنے تب اعباس علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت لینےمو لا حسین کے پاس تشریف لاۓ اس وقت امام مظلوم کے چہرے پر افسردگی چھا گی اور آپ نے فرمایا بھائی ،، تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ غازی نے ایک طرف گرم ریت پر پائمال لاشوں کی طرف اشارہ کیا مولا جس لشکر کا میں علمبردار تھا وہ تو زمیں کربلا کی گرم ریت پر پائمال ہوگیا ہے مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہین دیکھی جاتی ۔ معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی ۔بی بی سکینہ نے سارے پیاسوں بچوں کو جمع کیا اور کہا اپنے اپنے کوزے لے آؤ میرے عمو اب پانی لینے جاتےہیں ۔ تین دن کے بھوکے پیاسے بچے اپنے اپنے ۔کوزے اٹھا کر در خیمہ پر بیٹھ گئےادھر علم لیکر لشکر حسینی کا علمبردار چلا ۔ امام نے حکم دیا تھا ،عباس جنگ نہیں کرنی ۔ حکم امام نے غازی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں صرف ایک تلوار لی ، حضرت عباس کو دیکھتے ھی لشکر یذید میں ہیبت پھیل گی –
حضرت عباس باوفا نے اپنی تلوار کی طاقت سےیزیدی فوجوں میں انتشار پیدا کیا اور فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر ایکبعد شہادت آپ کا سر مبارک بھی اور شہدا کے سروں کے ہمراہ دربار یزید میں بھیجا گیا۔ اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ۔ غازی کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام کی خصوصی تربیت نے شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس علیہ السّلام کا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔
جواب دیںحذف کریں