اتوار، 29 جون، 2025

پیکر علم و عرفان-مرزا سلامت علی دبیر



 مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑھنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔۔مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔لکھنؤ شہر کو سلاطین  وقت  جو ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے   ادب کا تراشا ہو نگینہ بنا دیا تھا  -  شعراء کی سرپرستی کرتے تھے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر  اپنی  توجہ اپنے علم پر رکھیں -مرزادبیر   نے اپنی مزاجی کیفیت محسوس کر تے ہوئے  دہلی سے لکھنؤ ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔


انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘شاعری  کے میدان  میں ان کو الفاظ کی اتنی مہارت تھی  کہ انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا -آپ  کا ایک مشہور مرثیہ ۔کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے -ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے -سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے-شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو- جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو -راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے- ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے- تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے- دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے- غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر 

 
 

اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے فن شاعری  پر لاتعداد کتابیں لکھیں - اردو ادب کے شعراء کو سلام  عربوں میں مرثیہ نگاری کا رواج عام تھا۔ عبدالمطلب اور ابوطالب کے کہے ہوئے مرثیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ نے حضرت   محمد  مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال  پر بڑے دردناک پیرائے میں مرثیہ کہا۔ اسی حوالے سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  نے بھی مرثیہ کہا۔ اور حضرت علی  علیہ السلام نے حضرت فاطمہ ؑکی وفات پر مرثیہ لکھا۔


انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی   کے مطابق  اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔مرزا دبیر کو جب  ضعف بصارت کا مرض لاحق ہوا  جس  کا علم نواب واجد علی شاہ  کو ہو گیا اور پھر نواب صاحب کی  خواہش پر بغرض ضعف بصارت علاج کے لئے  کلکتہ تک گئے اور مٹیا برج میں مہمان ہوئے ۔  مرزا دبیر نے بہ کثرت مرثیے لکھے جو کئی جلدوں میں چھپ کر شائع ہو چکے ہیں۔ ایک پورا مرثیہ بے نقط لکھا ہے۔دوسو سالہ جشن دبیر -2003ء میں پوری دنیا میں ان کا دو صد سالہ جشن ولادت منایا گیا۔


3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبئ انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔ان کے مرثیے اپنے فکری گہرائی، جذباتیت اور زبان و بیان کی خوبصورتی کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے واقعہ کربلا اور اہل بیت کی شہادت کو اپنے کلام کا موضوع بنایا اور اردو مرثیے کو ایک نئی بلندیوں تک پہنچایا.جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا  نام  ہمیشہ  سنہری حرفوں سے  لکھا جائے گا۔ شاعر اہلبیت مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں ان کے مکان کے اندر   ہی دفن کیا گیا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی
مرزا دبیر کے کچھ غیر منقوط اشعار
اول سرور دل کو ہو ، اس دم وہ کام کر
ہر اہل دل ہو محو ، وہ مدح امام کر
حاصل صلہ کلام کا دارالسلام کر
کر اس محل کو طور وہ اس دم کلام کر


1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر