ہفتہ، 28 جون، 2025

حیدرآباد دکن میں قطب شاہی دور میں عزاداری کی ابتداء ہوئ

 

  جنوبی  ہندوستان  میں عزاداری  سید الشہدا کا آغاز    قطب شاہی  دور  میں  ہوا جبکہ بنگال میں سراج الدولہ کی شہادت کے بعد بنگال سے بھی بڑے پیمانے پر شیعہ مسلم ہجرت کر کے سرزمین حیدر آبا د پر وارد ہوئے   ۔ قطب شاہی  بادشاہوں  نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے بہت سے عاشور خانے یعنی امام باڑے تعمیر کرائے، اس سلسلہ میں بہت سی زمینیں اور جاگیریں وقف کیں۔ تیلگو عوام کی رسم و رواج کے مطابق گاؤں گاؤں علم نصب کرائے اور عاشور خانے تعمیر کرا کر عزاداری کو فروغ دیا۔مغلیہ بادشاہ اورنگزیب کے دور اقتدار میں یہاں عزاداری تقریبا بند تھی بس گھروں میں انتہائ رازداری کے ساتھ  غم عاشور منایا جاتا تھا ۔ لیکن  جب آصف جاہ  کا دور حکومت  شروع ہوا تو عزاداری میں پھر رونق آگئی۔محرم کے عشرہ اول میں یہاں موجود 30 سے زیادہ عمومی عاشور خانوں کہ جن میں سے زیادہ تر دورہ قطب شاہی میں تعمیر ہوئے ہیں،  عاشور خانوں کے احاطوں بڑا  علم نصب کیا جاتا ہے جس میں چاند رات سے شب عاشور تک شیعوں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے اہل سنت اور اہل ہنود زیارت کے لئے آتے ہیں۔‌

حیدرآباد دکن میں کچھ خاص تبرکات مندرجہ ذیل ہیں

1.  جسکی 10 محرم کو مرکزی جلوس میں ہاتھی کی سواری نکلتی ہے۔بی بی کا علم: بتایا جاتا ہے کہ جس تخت پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو غسل دیا گیا تھا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حیدر آباد لایا گیا اور اس پر سونا چڑھا کر علم کی شکل دی گئی۔ واضح رہے کہ روز عاشورا مرکزی جلوس بادشاہی عاشور خانے سے دن میں ایک بجے برآمد ہوتا ہے اور شام کو سات بجے مسجد الہیہ پر اختتام پذیر ہوتا۔2. نعل مبارک: بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے خود (جنگی ٹوپی) کا ایک ٹکڑا حیدرآباد لایا گیا جسے صندل میں محفوظ کیا گیا اس کی سواری شب عاشور رات 11 بجے نکلتی ہے جو تقریبا 10 کلومیٹر گشت کرنے کے بعد صبح 10 بجے واپس آتی ہے۔3. حضرت عباس علیہ السلام کی انگوٹھی۔ جسے صندل کے ڈبی میں رکھ کر علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔ یہ علم درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں نصب ہے۔4. الاوے سرطوق: امام زین العابدین علیہ السلام کے طوق کا ٹکڑا جسے علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔5. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چادر کا چھوٹا سا ٹکڑا جو خلوت کے عاشور خانے میں محفوظ ہے۔

6. پیراہن امام زین العابدین علیہ السلام۔

محرم الحرام کے عشرہ اول میں نماز صبح کے بعد سے گھر گھر عزاداری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اکثر ظہر تک جاری رہتی ہے، اس کے بعد سہ پہر سے دیر رات تک یہاں عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کے تقریبا ہر گھر میں عاشور خانے موجود ہیں، یہاں لوگ اپنے گھروں میں 29 ذی الحجہ کو علم نصب کرتے ہیں۔ شہنشاہیت کے زمانے سے اب تک یہاں بڑی شان و شوکت سے عزاداری ہوتی آ رہی ہے۔ کرونا وبا میں جب ہر جگہ عزاداری محدود ہو گئی تھی لیکن یہاں اپنے روایتی انداز سے عزاداری منعقد ہوئی۔ہندوستان میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کی تاریخی جڑیں ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کے ایران پر حملہ کے بعد کے برسوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت بہت سے ایرانیوں نے اس سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ بعض ہندوستانی حکمرانوں کے شیعیت کی طرف مائل ہونے کے بارے میں کچھ تاریخی شواہد کو اس بات سے  تقویت ملتی ہے کہ ایران سے ہجرت کرنے والوں نے تشیع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لکھنؤ شہر، جسے ہندوستان کے اہم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اثناء عشری شیعوں کا عظیم مرکز ہے اور اس شہر میں قدیم شیعہ مساجد اور امام باگاہوں کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ حیدرآباد، دکن اور میسور کے شہر ہندوستان کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں سے ہیں۔

چار مینار کے جلوس کا پرشکوہ منظر-ارض دکن کا تاریخی اہمیت کا حامل بی بی کے علم کا جلوس   یوم عاشورہ کو دوپہر ایک بجے الاوہ بی بی دبیر پورہ سے ہاتھی پر برآمد ہوتاہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت عظمی کی یاد میں نکالاگیا جلوس مختلف راستوں اور تاریخی چارمینار سے ہوتا ہوا مسجد الہی چادرگھاٹ پر پڑاؤ ڈالتا ہے۔قبل ازیں علم پر آصف جاہی خاندان اور نظام ٹرسٹ کے عہدیداران کے علاوہ سیاسی، سماجی رہنماوں اور پولیس کے اعلی حکام کی جانب سے ڈھٹی نذرکیجاتی ہے۔جلوس کے دوران مختلف شیعہ ماتمی انجمنیں   ماتم کرتی ہیں ۔ اس تاریخی جلوس میں ہزاروں عزادار شرکت کرتے ہیں  ۔ بی بی کے علم کے سامنے پولیس کا چاق و چابند  گھڑسواردستہ بھی موجود  ہوتا ہے


 شہر حیدرآبادمیں بی بی کے علم کے جلوس کی روایت کافی قدیم ہے۔زائد از400سال قبل قطب شاہی دور میں عبداللہ قطب شاہ کی والدہ حیات بخشی بیگم نے اس کا آغاز کیا تھا۔بعد ازاں آصفیہ خاندان کے فرمانرواوں نے نہ صرف اس روایت کو برقراررکھابلکہ بڑے پیمانہ پر گرانٹس کی منظوری بھی عمل میں لائی۔سلاطین آصفیہ کے دور میں بی بی کے علم پرہیروں کی چھ تھیلیاں بھی چڑھائی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے بھی عاشورخانوں پر خصوصی توجہ دی۔بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے۔نظام ٹرسٹ کے تحت محرم کے تمام انتظامات روبہ عمل لائے گئے۔اس کا سلسلہ آج تک بھی جاری ہے۔دکن میں قطب شاہی حکمرانو ں کے سلسلے میں پانچویں حکمران محمد قُلی قطب شاہ تھے جو ابراہیم قطب شاہ کے فرزند تھے۔ان کی پیدائش گولکنڈے میں ہوئی۔ ان کو اس اعتبار سے تاریخ ساز شخصیت کہا جا سکتا ہے  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر