میر انیس کا تعارف:
سنہ ء 1802 میں لکھنؤ میں اقامت گزیں میر مستحسن خلیل کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے میر ببر علی انیس رکھا -میر مستحسن خلیل خود بھی شاعر اہلبیت تھے اس طرح میر انیس کو شاعری کی تربیت اپنے گھر میں اپنے والد سے ہی ملی۔مرثیہ گوئ سے پہلے انہوں عاشقانہ بحر میں طبع آزمائ کی جس کا علم ان کے والد کو ہو گیا اور انہوں نے بیٹے کو کربلا کے میدان میں شاعری کی تلقین کی جس کی اطاعت میر انیس کی -میر انیس کو فارسی اور عربی زبانوں میں بھی مہارت حاصل تھی لیکن ان کی اصل شہرت کا ان کی مرثیہ نگاری ہے،انہوں نے رباعیات اور قطعات بھی لکھے۔میر انیس اردو ادب کے ایک عظیم مرثیہ نگار تھے، جنہیں اس صنف میں کمال حاصل تھا۔ انیس نے مرثیہ نگاری کو اس اوج کمال تک پہنچایا جو کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں تھا اسی لئے انہیں اردو ادب میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ ان کے مرثیوں میں جذبات و احساسات کی عکاسی، کردار نگاری اور منظر کشی کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
ان کے مرثیوں میں جذبات کی سچی تصویر کشی، کرداروں کی حقیقی عکاسی اور واقعات کی منظر کشی نے مرثیے کو ایک زندہ اور متاثر کن صنف بنا دیا۔ ان کے مرثیوں میں جذبات کی شدت اور زبان کی سلاست پڑھنے والے کو تو متاثر کرتی ہے ساتھ میں مجالس میں موجود عزاداروں کے قلوب کو بھی پگھلا دیتی ہےیہاں تک کہ کہ پڑھنے والا اور سامع دونوں اپنے آپ کو خود میدان کربلا میں موجود پاتے ہیں۔منظر کشی انیس کے مرثیوں میں واقعات کی منظر کشی اتنی واضح اور تفصیلی ہوتی ہے کہ قاری کے ذہن میں ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ میرانیس کی زبان سادہ اور سلیس ہے لیکن اس میں ایک خاص قسم کی اثر انگیزی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط سے کیا ہے اور ان کے مرثیوں میں زبان کی روانی اور خوبصورتی پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔
میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے وہ خدا کے گھر سے رثائی شاعری کا مرتبہ لے کر آئے اور اپنے اس مرتبے کو پہچان کر انہوں نے مرثیے کی صنف کو جس بلندی پر پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میر انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں
ایک بندمرثیہ حضرت علی اکبر سے
،،،،،،،،،،،،،
تا دیر تو سنتے رہے تلواروں کی جھنکار
تکتے تھے پر اکبر نہ نظر آتا تھا زنہار
لشکر میں ستمگاروں کے یہ غل ہوا اک بار
برچھی علی اکبر کے کلیجے سے ہوئی پار
لو سیدِ مظلوم کے دلدار کو مارا
مارا اسے کیا احمدِ مختار کو مارا ۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب تک آپ مقامی انداز کے روایات و انسانی جذبات کو بیان میں نہ شامل کریں ۔۔سننے والے اس تاثر کو بعینہ محسوس نہیں کرسکتے خود کو ان واقعات سے متصل نہیں کرپاتے۔۔ مثال یہ ہے کہ میر انیس کے مرثئے کے اشعار میں مہندی، نیگ ، سہرا ، اور شادی کی دیگر رسومات کا تذکرہ کرنا یا بہن بھائی کی رخصت پر جذباتی گفتگو ۔۔دکھ کے لمحات کا بیان بے ساختہ خوشی اور غم کا اظہار کرنا ہے ۔۔ ان جزئيات کی آمیزش جو خالصتا” برصغیر پاک وہند سے متعلق تھیں ۔مختصر یہ کہ میر انیس اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کے مرثیے نہ صرف اردو
ادب کا سرمایہ ہیں بلکہ انسانی جذبات اور احساسات کی سچی تصویر بھی ہیں۔
مرثیہ حضرت علی اصغر سے ایک بند
،،،،،،،،،،،،،،،
اب خون میں ڈوب کے یاقوت بنے گا
جس جھولے میں وہ پلتے ہیں تابوت بنے گا
اِن پھول سے رُخساروں کے کُمہلانے کو دیکھو
اِن سُوکھے ہوئے ہونٹوں کے مُرجھانے کو دیکھو
میر انیس نےاپنی فکر کے مطابق سنائے جانے والے واقعات کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر مرثیہ کو اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ دیا تاکہ سامع اپنے رشتوں اور جذبات کو ان واقعات میں رکھ کر اس درد کو محسوس کرے جو کربلا میں آلِ محمد پر وارد ہوئے ۔یوں سمجھئے کہ جہاں امام حسین اپنی بہن سے مخاطب ہیں یا بیٹی سے رخصت طلب ہیں سننے والا خود کو انکی جگہ رکھتے ہوئے ان تمام حادثات و صدمات کو محسوس کرتا ہے ۔اور گریہ کرتا ہے۔ گویا اس وقت تک آپ اس درد کو جذبے کو درک نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی یاداشت میں محفوظ کوئی اسی جیسا واقعہ یا دکھ آپ کے سامنے نہ آن موجود ہو۔۔میر انیس اس طرح منظر نامہ تحریر کیا کرتے تھے کہ گویا چشم تصور نے خود دیکھا اور محسوس کیا ہو۔ میر انیس کی طرح منظر کشی میں شاید ہی کوئی شاعر ایسی مہارت سے شعر کہنے پر قادر ہو۔وہ اگر فوج کا بیان کرتے ہیں تو اسکی شان و شوکت، زرہ، تلوارِ آبدار، خورد آہنی اس میں موجود زنجیریں یہاں تک کہ سواروں کے قدموں کی دھمک اور قدو قامت بھی سننے والے کے لئے مفصل طور پر بیان کرتے ہیں یوں جیسے تصور میں ہر لفظ بصورت تصویر دیکھا جارہا ہو ۔ میر انیس کا 29 شوال سنہ 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال ہوا اور لکھنؤ میں ان کے اپنے مکان میں ہی ان کی تد فین ہوئ۔ لکھنؤ میں ان کا عالیشان مقبرہ ہے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
مرثیہ کی میراث انیس کو اجداد سے منتقل ہوئی تھی-میر انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جاگتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ نمازِ صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کرتے تھے۔ بعدِ دوپہر بیٹوں اور شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ محفلِ احباب میں عقائد اور علوم وعرفانیات پر گفتگو کرتے تھے۔
جواب دیںحذف کریں