اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی عادتیں سدھارلو،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی ہربات کا جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اورمنجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے محض چھ مہینے بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کرسدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی گھر میں کسی نے ٹپکتے نہیں دیکھا،،یہاں تک کہ جب ابّا نے آگے بڑھ کر ان کو رخصت کرنے کو گلے لگا یا تب بھی وہ سرجھکائےہوئے ابّا کے سینے سے جا لگیں لیکن روئیں پھر بھی نہیں اس وقت ابّاکاچہرہ شدّتِ جذبات سے سرخ ہو گیا تھا اور منجھلی آپا اپنے قدموں پرجھول سی گئیں تھین پھر کسی کی آواز آئ جلدی کرو دلہن بے ہوش ہو جائے گی اور ان کو بہکتے قدموں پر چلاتے ہوئے دولہا کی سجی ہوئ گاڑی میں بٹھا دیاگیا تھا ،
ناجا نے ان کو ہو کیا گیاتھا کہ ان کے دلہناپے کو سکوت تھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئںلیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن بڑے بھیّا رسم کے مطابق منجھلی آپا کوسسرال جاکر لے آئے تھے لیکن انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئےتھے میں نے سب سے پہلے منجھلی آپ کی کلائیاں دیکھیں شائد میری نظریں ان کے ہاتھوں میں بھی جڑاؤ کنگن تلاش کر رہے تھے 'میرے خیال میں ہر دولہا شادی کے بعد اپنی دلہن کو جڑاؤ کنگن پہناتا ہےلیکن ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش نہیں تھیں بلکہ آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ کہنے کا حوصلہ دیاتھا
اور پھر شادی کے صرف چند ہفتوں بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہےاور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے'یہ کام کرنا ہے تو جواب ملتا اما ں سے پوچھ لو جو بات کروامّاں سے پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی او رامّاں کی آوازایک دھاڑکی شکل میں سنائ دی ،بس اب ایک لفظ جو منہ سے نکالامگر منجھلی آپا کے اوپر امّاں دھاڑ بھی بے اثر رہی اور وہ رو رو کر بتاتی رہیں
وہ بتا رہی تھیں کہ ان کی ساس کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکاکر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کےپاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو
یہ ایک سبق آموز ناول ہے
جواب دیںحذف کریں