جمعہ، 7 نومبر، 2025

استاد قمر جلالوی 'شہرہء آفاق شاعر

 دو شاعری کی دنیا کا کون سا فرد ہو گا جو اس نام سے ناواقف ہو گا  اور حیران کن بات یہ ہے کہ شہرہء آفاق شا  عر قمر جلالوی نے کسی  اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی بس ان کی تعلیم فا رسی اور اردو میں  گھر کی حد تک محدود رہی تھی ۔لیکن  انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا تھا، سماج کی ٹھوکریں کھائی تھیں اور اس سے ہی سبق حاصل کیا تھا۔ پھر اسی سبق کو انہوں نے اپنی شاعری میں دہرایا۔ اس لیے ان کی شاعری اکتسابی اور    فطری  ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ اس کا مقصد نام و نمود نہیں تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی اشاعت کی جانب کوئی توجہ نہیں کی۔قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلالی میں ہوئی تھی اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا، اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے تھے۔

   

برصغیر کے مشہور زمانہ شاعر قمر جلالوی نے  صرف آٹھ برس کی عمر سے شاعری شروع کی اور 24سا ل کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے لیکن وہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے البتہ جب علامہ رشید ترابی کو معلوم ہوا  کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر بے روزگار ہے تو انہوں نے ان کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا۔اپنی قادر الکلامی کے سبب وہ 30 برس کی عمر میں ہی استاد قمر جلالوی کہے جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ انہوں نے بہت سے شعرا کے کلام پر اصلاح دی لیکن اپنے کلام کی اشاعت سے بے نیاز رہے۔ وہ بہت خوددار طبیعت کے مالک تھے اس لیے کبھی انہو ں نے کسی کے سامنے دامنِ طلب دراز نہیں کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ ان کی زندگی میں ان کے مجموعہٴ کلام کی اشاعت تک نہیں ہو سکی۔   ان کا کلام ’رشک قمر‘، ’اوجِ قمر‘ اور ’تجلیاتِ قمر‘ کے عنوان سے ان کی وفات  کے بعد ان کی صاحبزادی کنیز جلالوی نے  شائع  کروایا ۔


  استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ جنہیں ”غم جاوداں“ کے عنوان سے ان کی صاحبزادی نے  شائع کیا۔قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔ بلکہ ان کی کچھ غزلوں کو پاکستان کے کئی گلو کاروں اور قوالوں نے صدا بند کیا ہے۔ ۔قیام پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور بہت جلد ہر مشاعرے کا جزولازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ 


جہاں ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو‘ دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی‘ شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ وہیں  وہ عاشقانہ غزلیات  سے ہٹ کر انتہائ پائے کے مرثیے‘ سلام‘ منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور  یہاں بھی  کربلا کے درد میں ڈوبی ہوئ شاعری  ان کے قلم کی زینت بن جاتی تھی -ان کے عارفانہ کلام  میں  کربلا کا درد رچ جاتا تھا ۔ ان کا عارفانہ کلام بھی عقیدت جاوداں کے نام سے ان کی صاحبزادی نے ہی شائع کروایا ہے وہ جب تک حیات رہے کراچی کے مشاعروں  میں اپنے ترنم سے مشاعروں کی زینت رہے 

ان کی مشہور زمانہ غزل پیش خدمت ہے

مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے
انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے 
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے
قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے 

استاد قمر جلالوی‘ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے‘ بجلی گری تھی جب گلستاں پر
 تاریخ  وفات'
Oct 24,1968

1 تبصرہ:

  1. شاعری کی دنیا کا کون سا فرد ہو گا جو اس نام سے ناواقف ہو گا اور حیران کن بات یہ ہے کہ شہرہء آفاق شا عر قمر جلالوی نے کسی اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی بس ان کی تعلیم فا رسی اور اردو میں گھر کی حد تک محدود رہی تھی

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر