تقسیم ہند کے وقت مراد آباد سے ایک خاندان نے ہجرت کی اور آگرہ تاج کالونی کے ایک کھولی نما کمرے سے زندگی کی ابتداء کی اس گھر کے سربراہ کا مراد آباد میں پرنٹنگ کا بزنس تھا جو پاکستان میں پھلنے پھولنے سے قاصر ر رہا چنانچہ اس خاندان میں24 دسمبر1950 میں آنکھ کھولنے والے بچے معین اختر نے اپنے بچپن کی عمر سے ہی گھر میں غربت کے سائے دیکھے اور پھر کھیلنے کودنے کی عمر میں ننھا سا معین اختر ایک موٹر میکینک ورکشاپ پر کام پر لگا دیا گیا یہ بچہ ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے جب بڑا ہوا تو میکینک کی جاب چھوڑ دی اور نئ منزلوں کی تلاش میں لگ گیا -معین اختر کا خود کہنا ہے کہ "میں نوجوان تھا، ادھر ادھر بھٹک رہا تھا، اور مکینک کی اپنی نوکری چھوڑ دی تھی۔ اب یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، لیکن میرے اندر ایک آواز مجھ سے کہہ رہی تھی، 'دیکھو، جو بھی کرنا، زبردست طریقے سے کرنا۔اور پھر محض سولہ برس کی عمر میں اس نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا - فن مزاح کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی اس شخصیت نے 6 ستمبر 1966 میں ایک ورائٹی شو سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا
لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا وہ جیسے اسٹیج پر آیا چاروں طرف سے لوگ اس پرہوٹنگ کر نے لگے ، لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دور دور تک نہیں تھے۔ وہ دھیمے انداز میں مائیک کی جانب بڑھا، اور حاضرین سے درخواست کی کہ اسے اس کا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو وہ خود اسٹیج سے اتر جائے گا۔ اس نے انتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اور جب 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا، تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد اس دنیا میں ایک شخص ایسا آتا ہے، جو اپنے آس پاس موجود ہر چیز کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے شخص کی موجودگی میں انہیں ضرور کچھ زبردست دیکھنے کو ملے گا۔اپنی ہارٹ سرجری کے صرف 20 دن بعد کینسر کے شکار بچوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے شو کرنا ہو، یا ساتھیوں کے واجبات وقت پر ادا کرنے کے لیے اپنی گاڑی بیچنا ہو
کسی بھی اجنبی کی مدد کرنے کے لیے دوسروں سے پیسے ادھار لینے ہوں، یا چھت پر ستاروں سے باتیں کرتے ہوئے راتیں گزار دینی ہوں۔ نئے آنے والوں کو موقع دینے کے لیے خود کو پیچھے کرنا ہو، یا گرم گرم آنسوؤں کو بھرپور ہنسی سے تبدیل کر دینا ہو، معین اختر ہر رنگ میں با کمال تھے۔معین اختر کا انتقال2011 میں حرکت قلب بند ہوجانے سے ہوا وہ دھیمے انداز میں مائیک کی جانب بڑھا، اور حاضرین سے درخواست کی کہ اسے اس کا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو وہ خود اسٹیج سے اتر جائے گا۔ اس نے انتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اور جب 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا، تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد اس دنیا میں ایک شخص ایسا آتا ہے، جو اپنے آس پاس موجود ہر چیز کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے شخص کی موجودگی میں انہیں ضرور کچھ زبردست دیکھنے کو ملے گا۔اپنی ہارٹ سرجری کے صرف 20 دن بعد کینسر کے شکار بچوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے شو کرنا ہو، معین اختر حاضر ملتا تھا-
جہاں اہم شخصیات کے انداز کی نقالی پر ملکہ حاصل تھا وہیں انہوں نے ٹی وی پر شائقین کو مزاح کے ایک نئے انداز سے بھی روشناس کرایا جو کہ ان ہی کا خاصا تھا۔ ٹی وی پر جہاں انہوں نے انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ مل کر کئی شاہکار پروگرام پیش کئے وہیں منچلے نوجوان سے لے کر ایک سنکی بوڑھے تک کے جو کردار انھوں نے ادا کئے انہیں دیکھ کر آج بھی ہونٹوں پر ہنسی مچل جاتی ہے۔ ان کے یادگار ڈراموں میں روزی، ہاف پلیٹ، شو ٹائم، اسٹوڈیو ڈھائی، ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا، انتظار فرمائیے اور عید ٹرین شامل ہیں۔اسٹیج ہو، ٹی وی یا پھر فلم معین اختر نے کبھی پھکڑ پن کا استعمال نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ بچے ہوں یا بڑی عمر کے افراد معین اختر ہر عمر کے لوگوں میں ہر دل عزیزتھے۔ ان کے فن کی گواہی ناصرف پاکستان بلکہ بھارت کے مشہور و معروف اداکار بھی دیتے ہیں۔ معین اختر کو ان کی ہمہ جہت فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی اہم قومی اور بین الاقوامی سطح ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ عوام نے کامیابی کا جو تاج معین اختر کے سر پہ سجایا تھا اسے انہوں نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔ ،
ان کے صاحبزادے اپنے والد معین اختر کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔معین اختر کے لفظی معنیٰ 'مددگار ستارہ' کے ہیں۔ اور ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے نام کی لاج رکھی۔ دنیا میرے والد کو ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے جانتی ہے، جبکہ میں انہیں ایک سخی شخص کے طور پر جانتا ہوں۔یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں انہیں اپنے گھر اور انسانیت کی بے لوث خدمت کرتے دیکھتا ہوا بڑھا۔ ہر ضرورت مند شخص کے لیے وہ ایک گمنام مددگار تھے۔ ان کی کئی سخاوتیں ایسی ہیں، جن پر میں پردہ پڑا رہنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہی ان کی خواہش تھی۔لیکن میں ایک بات ضرور کہوں گا، کہ ان میں دوسروں کی مشکلات اور مسائل سمجھنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ وہ لوگوں کی دلجوئی کرتے، ان کے غموں کو اپنا غم سمجھتے، اور ان کا بوجھ تقسیم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتےتھے
معین اخترصرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی پہچان تھے
جواب دیںحذف کریںاس ہمہ گیر اداکار نے 32 ڈرامہ سیریلز میں اپنی پرتپاک کارکردگی سے سامعین کے دل موہ لیے۔ ان کی شاںٔستہ زبان اور الفاظ پر گرفت نے انہیں پاکستان کا سب سے مایہ ناز میزبان بنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنی بے نظیر کارکردگی سے پاکستانی فلم انڈسٹری کا منہ موڑ دیا۔
جواب دیںحذف کریں