تھیٹر کی تاریخ جاننے کے لئے ہم کو زمانے کی کچھ قدیم تاریخ میں جانا پڑے گا -انسان نے جب اپنے لئے عام زندگی سے ہٹ کر کچھ تفریح طبع چاہی تب ابتدائی تھیٹر کا آغاز یونانی سرزمین سے پانچویں صدی عیسوی میں ہوا اور پھر دنیا کے کونے کونے میں اس کھیل نے اپنی شناخت بنالی۔ قیام پاکستان کے وقت صدر کے علاقے میں رام باغ ہوا کرتا تھا جو بعد میں آرام باغ ہو گیا -اسی آرام باغ میں لوگوں نے رات کو اسٹیج ڈرامے پلے کرنا شروع کر دئے -اس باغ میں تھیٹر سے لطف اندوز ہونے لئے آس پاس کے شہریوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی - ویسے تو تھیٹر ڈرامہ تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ المیہ، طربیہ اور رزمیہ لیکن ہر دور میں تھیٹر کی کئی نئی اقسام اسٹیج پر پیش کی گئیں، جن میں میوزیکل تھیٹر کو بے حد پذیرائی ملی۔پاکستان کے شہرکراچی اور لاہور میں متواتر جب کہ اسلام آباد میں کبھی کبھار تھیٹر سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل ناپا بڑے پیمانے پر جبکہ وہیں دوسرے پرائیویٹ ادارے بھی چھوٹے پیمانے پر تھیٹر کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔1982اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔ محترم جناب انور مقصود ہمارے وطن کے مایہ ء ناز لکھاری ہیں -جنہوں نے پاکستانی عوام کو تفریح طبع کے لئے بہترین ڈرامے لکھ کر دئے
جبکہ بھارت میں 1950ء میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد نے تین تھیٹر اکیڈمیاں قائم کیں۔ ایک ہی عشرے بعد ہندوستان میں یہ تینوں اکیڈمیز نئے ٹیلنٹ کی آبیاری مستقل بنیادوں پر کرنے لگیں۔ ایسے اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے فنڈز کی مسلسل ترسیل سے تھیٹر ہر اسٹیٹ میں مفت تفریح کا ذریعہ بنا۔اس کے نتیجے میں انڈین معاشرے میں نا صرف ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوئی بلکہ لوگوں میں تھیٹر کی اہمیت اور افادیت کا تصور بھی بحال ہوا۔ انڈین فلم انڈسٹری کے منجھے ہوئے بیشتر اداکاروں نے شوبز کا آغاز ہی تھیٹر سے کیا۔ہندوستان کے مایہ ناز اداکار شاہرخ خان نے اور ہمارے دنیا کے جانے مانے معین اختر نے بھی ابتداء تھیٹر سے ہی کی - دنیا میں ہر جگہ فنکار خود کو تھیٹر ایکٹر کہلوانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں جیسے فلم انڈسٹری کا زوال بتدریج دیکھنے میں آیا بلکل اُسی طرح سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کی جگہ 'گھٹیا کمرشل تھیٹر‘ نے لے لی۔ پاکستان میں تھیٹر کو کبھی بھی سنجیدگی سے آرٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔یہاں تھیٹر سے مراد سنجیدہ اور بامقصد ڈراموں کی پیشکش ہے ورنہ کراچی اور خاص کر لاہور میں اسٹیج ڈراموں کے نام پر جو کچھ پیش کیا جاتا رہا ہے اسے پھکڑ پن، عامیہ مزاح اور غیر معیاری رقص کے سوا کچھ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بے شک کراچی میں معین اختر اور عمر شریف نے اسٹیج کے لئے بہت کام کیا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔
گو کہ کراچی میں پہلے کئی آڈیٹوریم ہوا کرتے تھے جن میں ’ریکس‘ ، ’ریو‘ اور’بحریہ آڈیٹوریم‘ وغیرہ شامل تھے۔ لیکن، اب سب سے زیادہ کامیاب آڈیٹوریمز میں دو نام آرٹس کونسل اور ایف ٹی سی سر فہرست ہیں جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں بھی کچھ اسٹیج ڈرامے پیش ہوتے رہے ہیں۔ یہ کراچی کی واحد انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں فنون لطیفہ کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔کراچی کے وسط میں شانزے کے نام سے بھی ایک آڈیٹوریم گزشتہ کئی سال سے کام کر رہا تھا۔ لیکن اسے جدید ترین سنیما ہال میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کا نام ’سنے پلیکس‘ رکھا گیا ہے۔کراچی میں تھیٹر کی زبردست مقبولیت کے ساتھ ساتھ آڈیٹوریم میں کمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آرٹس کونسل کا تھیٹر آڈیٹوریم کافی'کافی مہینوں تک کے لئے مسلسل بک رہتا ہے- اس واقت خواتین تھیٹر رائٹرز میں مدیحہ گوہر کا نام میرے زہن میں آ رہا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے ڈراما گروپس کو لاہور بلا لیتی اور کبھی ‘ پنج پانی تھیٹرفیسٹیول’، کبھی ‘ ہمسایا تھیٹرفسٹیول ‘، کبھی ‘ زنانی تھیٹرفیسٹیول ‘، کبھی ‘ دوستی تھیٹرفیسٹیول ‘ تو کبھی ‘ امن تھیٹرفیسٹیول ‘ کرتی رہتی تھی۔دونوں ممالک کے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے انہوں نے ‘ آل پرفارمنگ آرٹس نیٹ ورک ‘ (APAN) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم تھا۔
کراچی اور لاہور میں دور آمریت میں مزاحمتی اور علامتی تھیٹر نے بہت اچھا کام کیا۔ ان میں دستک گروپ ایک اعلی معیار کا حامل تھیٹر گروپ تھا جس کو منصور سعید اور پی ٹی وی کے پہلے سربراہ اسلم اظہر نے قائم کیا تھا۔دستک نے بریخت ، میکسم گورکی، چیخوف اور ابسن کے ڈراموں کو اردو میں ترجمہ کر کے جہاں سیاسی شعور بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا وہیں شیما کرمانی کا تھیٹر گروپ " تحریک نسواں " اور مدیحہ گوہر کے ” اجوکا” نے خواتین اور سماجی موضوعات کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔آمریت کے اس دور میں سرکاری اداروں میں ایسے سیاسی اور سماجی تھیٹر کرنے پر پابندی عائدتھیں۔ اس لئے مختلف غیر ملکی کلچرل سینٹر جیسے گوئٹے انسٹیٹیوٹ، برٹش کونسل اور پی اے سی سی ان تھیٹر گروپس کی جائے پناہ ہوتی تھیں۔1985ء میں پنجاب لوک رہس گروپ نے پنجابی زبان میں تھیٹر کی بنیاد رکھی، جس میں پنجاب کی روایت اور کلچر کے علاوہ زبان کو فروغ دینے کا نصب العین بھی اپنایا۔ اسی دوران سندھ کی سندھیانی تحریک کے پلیٹ فارم سے بھی ایسے تھیٹر ڈراموں نے سندھ کے عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کیا اور خواتین کی تھیٹر کے ذریعے سیاسی دارے میں سشمولیت کے مواقع بھی ملے کیونکہ تھیٹر کے زریعہ شعور نے ان کے زہنوں پر دستک دی۔لیکن، ان کی کلاس دوسری تھی جبکہ اب جو اسٹیج ڈرامے پیش ہو رہے ہیں ان کے ’جنم داتا‘ منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ ساتھ انور مقصود جیسے ماہر’ لکھاری‘ ہیں۔
ماضی کی بات ہے انور مقصد کا اسٹیج پلے ’آنگن ٹیڑھا‘ کراچی کے آرٹس کونسل میں پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ اسی نام سے پی ٹی وی سے پیش ہو چکا ہے اور اس نے بے انتہا کامیابی اور شہرت حاصل کی تھی۔ یہ ڈرامہ آج بھی پی ٹی وی کے عروج کی زندہ مثال ہے۔کراچی کے ساتھ ساتھ یہ ڈرامہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی اسٹیج ہوا اور خوب شہرت پائی۔ صرف کراچی میں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک اس کی نمائش جاری رہی۔اس سے پہلے انور مقصد کا ایک اور ڈرامہ ’پونے چودہ اگست‘ اسٹیج کی دنیا پر چھایا رہا۔ اس کے بعد ’دھانی‘ اور اب ’سواچودہ اگست‘ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں