آپ کا شجرہ یوں ہے: ’’حضرت سید علی ہجویری بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید علی بن حضرت سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شاہ شجاع) بن حضرت سیدالوالحسن علی بن حضرت سید حسن (اصغر) بن حضرت سید زید بن حضرت امام حسنؓ بن حضرت سیدنا علیؓ ‘‘۔ آپ کا قد میانہ جسم سڈول اور گھٹا ہوا تھا۔ جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں۔ فراخ سینہ اور ہاتھ پاؤں مناسب تھے چہرہ زیادہ گول تھا نہ لمبا۔ سرخ وسفید چمکدار رنگ تھا۔ کشادہ جبیں اور بال سیاہ گھنے تھے۔ بڑی اور غلافی آنکھوں پر خم دار گھنی ابرو تھیں۔ ستواں ناک، درمیانے ہونٹ اور رخسار بھرے ہوئے تھے چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ آپ بڑے جاذب نظر اور پرکشش تھے۔آپؒ تن ڈھانپنے کیلئے کسی خاص وضع قطع کے لباس کا تکلف نہ فرماتے تھے، جو میسر آتا پہن لیتے تھے۔ لباس کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔
آپؒ سلطان مسعود غزنوی کے دور میں وارد لاہور ہوئے ان کے ہمراہ حضرت ابو سعید ہجویری اور حضرت حماد سرخسی رحمتہ اللہ علیہم تھے۔ اس وقت لاہور میں شہزادہ مجدد بن مسعود نائب السلطنت غزنویہ تھا اور لاہور ایاز کی سرپرستی میں پنجاب کے سید علی ہجویریؒ کے ورودِ لاہور کے بارے ’’فوائد الفواد‘‘ میں ۲۹ ذیقعدہ 708 / ۱۰ مئی 1309 ء کی ایک مجلس کے حوالے سے یوں لکھا ہے کہ ’’شیخ علی ہجویری اور شیخ حسین زنجانی ایک مرشد سے بیعت تھے۔اسلام کے وہ بزرگانِ دین جن کی کوششوں سے بُت کدہ ہندوستان میں اسلام کی شمع روشن ہوئی اُن میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتا گنج بخشؒ بہت اُونچا مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپؒ کی تعلیمات نے نہ صرف اُس وقت کفر کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی جب مشکل سے ہی کوئی اللہ کا نام لیوا نظر آتا تھا بلکہ اُن کی تعلیمات اور اقوالِ زریں تقریباً گیارہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی قدم قدم پر دین و دنیا کا صحیح راستہ دکھانے میں رہنمائی کرتیں ہیں۔
جس طرح خوش خطی کے لئے بچوں کو عبارت کی پہلی سطر کی نقل کرنی چاہیے اسی طرح آج کے نوجوانوں کو بھی یہ بتانے کی بے حد ضرورت ہے کہ کئی سو سال پہلے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے اپنا وطن گھر بار چھوڑ کر تبلیغِ دین کے لئے لاہور تشریف لانے والے ، یگانہ روزگار درویش اور فقید المثال مردِ حق کے حالاتِ زندگی اور برصغیر ہندوپاک کے مذہبی حالات کیا تھے۔ اس تاریک خطہ زمین میں نورِ اسلام کس طرح پھیلا جس کی بدولت ہم آج حضورِ اکرمؐ کے اُمتی ہونے پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں چونکہ اپنے محسنوں کے احسانوں کو یاد کرنا بھی مسلمان کی شان ہے اس لئے تاریخ کے اوراق کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا ہی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔شیخ سیّد علی ہجویریؒکی زندگی کے حالات کا آپؒ کی معرکتہ لآراتصنیف کشف المحجوب سے پتہ چلتا ہے۔ آپؒ کی ولادت اُس دور میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی حکومت کے آخری دن تھے۔ تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کا سنِ ولادت 400 ہجری ہے۔
آپؒ نے افغانستان کے علاقہ غزنی کے محلہ ہجویر میں ولادت پائی۔ آپؒ نے بچپن کا کچھ عرصہ وہاں بھی گزارا۔ والد کا نام عثمان اور دادا کا نام علی تھا۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ سے جا کر ملتا ہے اس لئے آپؒ ہاشمی حسنی سادات ہیں۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں اور ملکوں کا پیدل سفر اختیار کیا ۔ مختلف دینی مدرسوں، عالموں، بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے نہ صرف دینی تعلیم حاصل کی بلکہ اُن کی صحبت میں رہ کر اُن سے فیض بھی حاصل کیا۔ ایران، ترکستان، عراق، بغداد، شام اور عرب کے دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا۔ اس دوران ہر قسم کی سفر کی صعوبتیں برضا و خوشی برداشت کیں۔ اس طرح اُن کے کردار میں پختگی اور شخصیت میں بزرگی اُبھر کر سامنے آ گئی۔ خراسان میں تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ فیض حاصل کیا۔ تحصیلِ علم کے بعد مرشد کامل کی تلاش میں دور دراز علاقوں کا پُرخطر سفر اختیار کیا۔ اور آخر کار شیخ کامل کو پانے میں کامیاب ہو گئے
۔ اور اُن کے حسنِ تربیت اور فیضِ نظر سے آفتابِ ہدایت بن کر طلوع ہوئے۔ آپؒ کے اُستاد شیخ کامل کا نام شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی تھا جو سلسلئہ جنیدیہ سے منسلک تھے۔ شیخ علی ہجویریؒ لکھتے ہیں کہ "اُن کے شیخ تصوف میں حضرت جنید کا مذہب رکھتے تھے اور طریقت میں میری بیعت الہیٰ سے ہے"۔ آپؒ نے کئی سالوں تک اپنے مرشد کی خدمت کی۔ اور جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کا سر اپنے شاگرد سیّد علی ہجویریؒ کی گود میں تھا۔ آپؒ کے قابلِ ذکر اُستادوں میں ابوسعید ابوالخیر اور امام ابو القاسم قشیری شامل ہیں۔ جب آپؒ نے خود دینوی اور روحانی علوم پر دسترس حاصل کر لی تو دوسروں کی رہنمائی کے لئے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پختہ عزم کر لیا۔خواب میں ملنے والی پیر و مرشد کی ہدایات کے مطابق آپؒ نے لاہور کا سفر اختیار کیا۔ 431ہجری میں لاہور پہنچے تو خواجہ حسن زنجانی اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے اور اُن کی نمازِ جنازہ آپؒ نے پڑھائی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں