زندگی کے المیوں کی کہانیا ن لکھنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی اپنے دل پر جبر کر کے لکھتی ہوں کہ شائد کوئ بھٹکتی نظر میری تحریر پڑھ کر راہ راست پر آجائے تو میری تحریر کا صلہ مجھے مل جائے گا یہ ایک محفل تھی بہت سے جانے پہچانے چہرے تھے اور کئ چہرے نا شناسا بھی تھے ان نا شناسا چہروں میں ایک لڑکی اپنی ننّھی منّی سی بیٹی کو لئے بیٹھی تھی لڑکی بھی شکل و صورت کی اچّھی تھی لیکن اس کی گود میں بچّی ماشاللہ بہت پیاری تھی میں نے پیار سے دیکھا تو میرے پاس ہمک کر آ گئ ، میں کچھ دیر اس سے کھیلتی رہی پھر وہ بچّی اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئ ،محفل تمام ہو چکی تھی لیکن کھانا نہیں آسکا تھا صاحب خانہ بوکھلائ ہوئ تھیں لیکن مہمانو ں نے کہا پریشان نا ہوں ابھی وقت زیادہ نہیں ہوا ہے صاحب خانہ ہمارے پاس سے دوسری جانب چلی گئیں ان کے جانے کے بعد میں پھر لڑکی سے مخاطب ہوئ مین نے لڑکی سے کہا معلوم ہوتا ہے تمھارے والد بہت خوبصورت ہوں گے اس نے سوال کیا آپ کس بنیاد پر کہ رہی ہیں میں نے کہا کیونکہ بنیاد یہ ہے کہ جینیاتی طورپر بیٹی کی اولاد اکثر اپنے نانا کی شکل پر ہوتی ہے ،
جو میں نے پڑھا ہے اس کے علاوہ کوئ اور لاجک ہو تو میں نہیں جانتی ہوں لڑکی نے اپنے سینے سے ایک گہری سرد آہ کھینچی ،،میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگی آپ نے ٹھیک پہچانا لیکن میرے والد کا مقدّر ان کی ساری وجاہت کے بر عکس بڑا کھوٹا نکلا-لڑکی پھر گویا ہوئ ،امّی نے ابّو کو زبردستی باہر یہ کہ کر بھیجا کہ میرا اس پیسے میں گزارہ نہیں ہوتا ہے ابّو بلکل نہیں جانا چاہتے تھے اور پھر ابّو نے بالآخر امّی کے آگے ہا ر مان لی اور باہر چلے گئے ،ابّو کے باہر جانے کے بعد ہمارے ایک عزیز امّی سے کچھ چھوٹی عمر کے امّی کے پاس آنے لگے اور ابّو کا بھیجا ہوا پیسہ ہمارے گھر میں خوشحالی تو لایا لیکن ساتھ امّی کی بے راہروی بھی ساتھ لایا اور میرے ابّو کی پردیس کی خون پسینے کی کمائ امّی بے دریغ اُن پر اور اپنے بناو سنگھار پر خرچ کرنے لگیں، ہم بہن بھائیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار گزرتا تھا اور ہم سب بہن بھائ ان کے آنے پر اپنے اپنے طور پر اپنی خفگی کا اظہار کرتے تھے لیکن امّی نے سختی سے کہ دیا کہ کوئ بچّہ ان کے معاملات میں دخیل ناہو اور ہم بہن بھائ چپ ہو گئے
اور پھر دو برس تو جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ابّو پاکستان چھٹّیوں پر آ گئے اور امّی نے ابّو کے آگے طلاق کا مطالبہ رکھ دیا ابوّ نے پہلے تو امّی کو سمجھا یا کہ بچّوں کی خاطر گھر برباد نا کریں ابّو بہت ، بہت روئے لیکن حالات اس نہج پر تھے کہ ابّو کو با لآخر طلاق دیتے بنی اور پھرطلاق ہوتے ہی امّی کی تقدیر کی بساط الٹ گئ،وہ شخص جو دو برس سے امّی کا پل پل رات اور دن کا ساتھی تھا وہ جو امّی سے کہتا تھا کہ طلاق لے لو میں تم سے شادی کروں گا وہ ا مّی کی زندگی کے آسمان سے دھواں بن کر اس طرح تحلیل ہو گیا کہ جیسے وہ امّی کی زندگی میں آ یا ہی نا ہوگیا ابّو کے طلاق دینے کے بعد اب امّی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے میکہ جاچکی تھیں ،اور ابّو پردیس دوبارہ جانے سے انکاری تھے کیونکہ پھر ہم تینوں بھائ بہن اکیلے رہ جاتے -پھر ابو نے سب سے پہلے مکان بیچ کر دوسرا مکان پچھلے گھر سے بلکل دور دوسرا مکان لیا اور ہم بچوں کو سمجھا دیا کہ یہاں ماں کے لئے سوال ہو تو کہ دینا کہ کافی پہلے انتقال ہو گیا -
پھر نئے گھر میں زندگی بہت اچھی طرح چل پڑی -میں نے نئے گھر میں شفٹ ہو کر گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ 'ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دی 'بھائ کو ابو نے نگرانی میں رکھا جس کی وجہ سے وہ بھی بہتر ہوا کچھ برس اسی طرح گزرے اس عرصہ میں، میں انّیس برس کی مجھ سے چھوٹی بہن ستّرہ برس کی اور بھائ پندرہ برس کا ہو گیا تھا اور ابّو نے پردیس جانے کے بجائے گھر کے قریب ہی مارکیٹ میں ریسٹورینٹ کھول لیا اور تاکہ ہم بہن بھائ گھر میں اکیلے نہیں رہیں ایسے میں میرا ایک اچھّا رشتہ آیا جسے ابّو نے دیکھ بھال کر میری شادی کر دی اس سنگین حادثہ کی وجہ سے میرا انتہائ نفیس مزاج معصوم بھائ نفسیاتی مریض ہو گیا تھا جس کو میں نے ابّو کے ساتھ ملکر بہت سمجھداری سے سنبھالا اور پھر وقت گزرتا رہا بس رشتے داروں سے ہمیں اتنا پتا چلا کہ امّی کے بھائیوں نے ان کی شادی کراچی کے بجائے سندھ کے کسی اور شہر میں کر دی ہے،ظاہر سی بات ہے کہ میرے ماموؤں کی اپنی فیمیلیز تھیں اور حقیقت بھی یہ تھی کہ امّی کے کردار کو ان کے میکہ میں سب ہی برا کہہ رہے تھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں