کراچی سے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر منگھو پیر کے قصبے میں ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کے آثار بکھرے ہوئے ہیں جن میں ٹیلے، مساجد، مقابر،مزارات وغیرہ اشامل ہیں، خطے کی ارتقائی تہذیب و تمدن کی خاموش داستان بیان کرتے ہیں۔ پہاڑی ٹیلوں اور کیکرکی جھاڑیوں و جنگلات سے گھرا ہوا ’’منگھوپیر‘‘کا یہ وہ قصبہ ہے، جہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اس قصبے کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ علاقہ کسی دور میں آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو کسی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سےمٹ گیا لیکن اس کے آثار اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔منگھوپیر کا علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔ اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کی منقش قبریں، مکانات،تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔قدیم دور میں یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا۔اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی
ان کے قافلے اسی راستے سے گزرکر اگلے مستقرکی جانب عازم سفر ہوتے تھے۔ دوران سفر ان کا پڑا و لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے قصبات میں ہوتا تھا،جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔اس کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ،ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، ان میں چوکنڈی طرز کی قبریں بھی ہیں۔ یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ،یہاں ایسی قبریں بھی دیکھی گئیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اورآات حرب کے نقوش بھی پائے جاتے تھے جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ خواتین کی ہیں ۔مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں،اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش نگار بھی بنائے گئے ہیں۔ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔ ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی باآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔
شہر کے شمالی حصے میں واقع یہ علاقہ ایک صوفی بزرگ منگھو پیر کی مزار کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے۔صدیوں پرانے مزار کی انوکھی بات، یہاں پر موجود بہت بڑا تالاب اور گرم پانی کا چشمہ ہے۔ تالاب میں درجنوں مگرمچھ رہتے ہیں، جنہیں مزار پر آنے والے عقیدت مند باقاعدگی کے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں۔ عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ مگر مچھ صوفی بزرگ سے منسوب ہیں۔ علاقے کی قدیم کتب اور 19ویں صدی کی برٹش راج کی تحریروں میں مزار کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق یہ مگرمچھ صدیوں سے یہاں پر موجود ہیں۔ کچھ ماہرینِ آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں یہاں مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات ملی ہیں اور کالونیل دور کے برطانوی مصنفین کے مطابق بھی مگرمچھ وہاں 'ہزاروں سالوں سے موجود ہیں۔منگھوپیر کراچی کی تند و تیز مکرانی/شیدی برادریوں کے روحانی پیشوا ہیں۔ یہ لوگ ان افریقی غلاموں کی اولادیں ہیں جنہیں 10 ویں اور 17 ویں صدی کے دوران عر، فارسی، ترک اور یورپی حملہ آور یہاں لائے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر بلوچی بولنے والے مسلمان محنت کش مرد و عورت ہیں جن میں فٹ بال، باکسنگ، گدھوں کی ریس اور رقص کا جنون پایا جاتا ہے۔ مزار کے سالانہ میلے کو شیدی اپنی بنیادی افریقی طرز کے ساتھ مناتے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دور (3300-1200 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں کچھ پیتل کی قدیم اشیاء بھی ملی ہیں، جن پر موجود نقش و نگار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں آباد ہوگا، کہا جاتا ہے کہ 13ویں صدی میں جب بزرگ نے یہاں سکونت اختیار کی اور ان کی وفات ہوئی ، اس وقت علاقے میں بہت زیادہ سبزہ موجود تھا۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس وقت تک مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہو چکے تھے اور خوراک کے لیے بزرگ کے پیروکاروں پر انحصار کرنے لگے تھے۔ دنیا میں دیگر مقامات پر پائے جانے والے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگرمچھ گوشت سے لے کر مٹھائی تک تقریباً سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل در نسل پیروکاروں کے ہاتھوں سے طرح طرح کی خوراک کھا کر اب یہ مگرمچھ تمام چیزیں کھانے کے عادی ہوگئے ہیں۔یہ قبریں تعمیراتی فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن اس طرز کی زیادہ تر قبریں ناپید ہوچکی ہیں صرف دو قبریں منگھوپیر کے مزار کے سامنے موجود ہیں ، ان کی حالت بھی مخدوش ہے۔
میں نے یہ علاقہ کافی توجہ سے دیکھا ہے اگر ماہرین آثار قدیمہ یہاں توجہ دے تو اس جگہ کو تاریخی حیثیت دی جا سکتی ہے
جواب دیںحذف کریں