اگر پاکستان میں چاند پر جانے کے لئے خلانوردوں کے انتخاب کی بات ہو کراچی کے شہری یہاں کی منی بسوں کے ڈرائور ز کو اس مقا بلے میں شا مل ہونے کا مشورہ ضرور دیں گے کیونکہ کراچی کی سڑکوں پر بنے ہوئے ٹیلے نما اسپیڈ بریکرز اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے غار نما گڑھوں پر بھی منی بسوں کو رواں رکھنا انہی کا کمالِ مہارت ہو تا ہے اور منی بس کی ہئت کدائ تو ہے ہی عالمی مقابلہ ء ٹریفک میں رکھّے جانے کے قابل چھتوں پر چمکتے دمکتے رنگ برنگے خوبصور ت کئریر اور ان پر بیٹھے ہوئےکراچی کے فاقہ مست محنت کش مزدور،، اندر کی سیٹوں پر براجمان دفتریبابو اور ملازمین لیجئے یہ آ رہی ہے پیلے رنگ کی حسینہ چار سوبیس بلکل دلہن کی طرح سجی ہوئ ،زرا رونمائ تو کیجئے تو آپ کو اندر ٹیکہ جھومر ست لڑا گہنے پاتے-سب کچھ اس کی ونڈ اسکرین کے ماتھے پر سجا ہوا مل جائے گا ، لیجئے بھئ یہ آ گئ بلکل خلائ راکٹ اپالو گیارہ کی طرح اب زرا جلدی سے گولی کی طرح سوار ہو جائیے
ارے ! یہ کیا آپ تو قدم رنجہ فرماتے ہی گر گئے ،چلئے کوئ بات نہیں اٹھ جائے ،،شاباش ،،چوٹ تو نہیں لگی ویسے لگنی نہیں چا ہئے اللہ نے بچایا ورنہ گرے تو اوندھے منہ تھے یہ بھی اچھّا ہوا کیونکہ گرے تو نامعلوم گود میں تھے کیا پہلی مرتبہ منی بس کا سفر ہے ورنہ کراچی کے باسی تو ان چوٹوں اور خراشوں کے عادی ہو چکے ہیں کوئ بس سے اتر کر کہنی سہلا رہا ہوتا ہے اور کسی کے سر پرگومڑ پڑ چکا ہوتا ہے لیکن بس رواں دواں رہتی ہے جی اب زرا سنبھل کر ڈنڈا پکڑ لیجئے یہ دیکھئے وہ رہا آپ کے سر پر بس ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے پر-جی ہاں! یہ ہے کراچی کے شہریوں کا مقدّر جس کو انہوں نے اپنی تقدیر کالکھا ہوا جان کر صبر کر لیا ہے ہم بھی اس کڑوے تجربے سے اس طرح گزرے کہ بھیّا بھابھی نے فیصلہ کیا اب شہر کی گنجان آبادی میں رہنے کے بجائے آلودگی سے پاک کسی پر فضاء مقام پر رہا جائے چنانچہ شہر سے کچھ پرے یونیورسٹی روڈ پر ایک نئ تعمیر شدہ بستی میں ہم سب شفٹ ہو گئے
اور ہوا یوں کہ بھیّا جو ہم کو پہلے ہمارے اسکول پر ڈراپ کر کے اپنے دفتر جاتے تھے ان کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ پہلے ہم کو ہماری جاب پر کھارا در چھوڑیں اور پھر اپنے دفتر جائیں تب ہم نے فیصلہ کیا کہ منی بس کے زریعے اسکول وقت پر پہنچنا ہی بہتر رہے گا ،جب ہم پہلی بار بس میں سوار ہونے کےلئے کھڑے ہوئے تھے ہمیں مسافروں نےسمجھا دیا تھا کہ بس آئے تو جلدی کئے گا ورنہ بس والا چلتی بس سے گرادے گا اس لئے ہم نے مسافروں کو دیکھ بھی لیا تھا کہ وہ بس میں پستول کی گولی کی مانند سوار ہو رہے ہوتے ہیں اور اس طرح نکل بھی رہے ہوتے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہماری مطلوبہ بس آئ ہم بھی اس میں مسافروں کی بھیڑ کے ہمراہ دھکّم پیل کرتے ہوئے سوار ہوئے اور ابھی کھڑے ہونے کے لئے سنبھل ہی رہے تھے کہ بس ایک جھٹکے سے چل پڑی اور ہمارا توازن جو بگڑا تو ہم ایک خاتون کی گود میں جا گرے
شرمندگی کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی تو بریک کے جھٹکے نے ہلا ڈالا اور اس کے ساتھ ہی کنڈکٹر نے کرایہ طلب کر لیا ،،کرائے سے فارغ ہوتے ہی کنڈکٹر نے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں گھس پِل کر جگہ بنائ اور ڈرائیور کے برابر میں موجود ٹیپ ریکارڈ آن کر دیا اور ٹیپ سے لتا کی پرسوزغزل کے بو ل برآمد ہوئے دھڑکتے دل کا پیام لے لو اب بس میں مکمّل خاموشی تھی اور بس کا ہر مسافر اپنے طور پر لتا کا سلام و پیام لے رہا تھااور پھر بس نے اوور ٹیکنگ کے نتیجے میں اپنا توازن جو کھویا تو بس ایک دم لہرا سی گئ اوربس میں چیخیں بلند ہوئیں ساتھ ہی اور لتا کی غزل آگے کے بولوں پر آئ اٹھےجنازہ جو کل ہمارا-قسم ہے تم کو نا دینا کاندھا اب بس چند ثانئے کو رکی ہی تھی کہ بس کا اگلا حصّہ رنگین آنچلوں کی معطّر خوشبو سے مہک سا گیا تب ہمیں معلوم ہوا بس کراچی یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر رکی تھی-اور بس پھر چل پڑی لتا کی غزل بھی آگے بڑھی اٹھے جنازہ جو کل ہمارا قسم ہے تم کو نادینا کاندھا-
بس خلائ راکٹ کی رفتار سے اپنی منزلِ مقصود کی جانب جا رہی تھی کہ پھر بس نے ایک اور بھاری ٹرک کو اوور لوڈ کیا بس اس طرح لہرائ جانو ابھی الٹی بس میں پھر مسافر ایک دوسرے پر گرے اور چیخیں بلند ہوئیں پیچھےسے کوئ مسافر چیخا ابے رفتار کم کرتا ہے یا اور اس کے ساتھ کنڈکٹر نےمسافر کو منہ توڑ جواب دیا ابے امیر کے بچّے ٹیکسی میں جایا کر اورلتا کی غزل ٹیپ کی سوئ پر اٹک گئ اٹھے جنازہ جو کل ہمارا،، اٹھے جنازہ جو کل ہمارا ،،اٹھے جنازہ جو کل ہمارا اور ایک عورت نے اپنے پرس سے تسبیح نکال کر ورد شروع کیا جل تو جلال تو آئ بلا کو ٹال تو اب ہمیں بھی بس میں بیٹھنے کی جگہ مل گئ تھی اور ہمارے برابر میں بیٹھی خاتون منہ ہی منہ میں بُدبُدا رہی تھی یا اللہ خیر سے سب کے پیاروں ملائیو سب کے صدقے میرے پیاروں کو ملائیو ،یاللہ اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے ،یا للہ اب میں پڑوسنوں کی غیبتیں بھی نہیں کروں گی ،میاں سے چھپ کر میکے بھی نہیں جاؤں گی -کنڈکٹر نے ٹھوک بجا کر ٹیپ ٹھیک کر دیا تھا اور اب غزل کے بول مرگِ مفاجات سے بچنے کی دعاؤں کی یاد دلا رہے تھے تمھاری دنیا سے جا رہے ہیں- اٹھو ہمارا سلام لے لو ہم نے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ میاں سے پیشگی مغفرت طلب کی اور گولی کی رفتار سے بس سے باہر آگئے کیونکہ ہماری منزلِ مقصود آ چکی تھی
یہ میرا مطبوعہ افاسانہ ہے جو مجھے خود بھی پسند ہے
جواب دیںحذف کریں