فیروز خان نون نے اپنی خود نوشت 'چشم دید' میں لکھا ہے کہ 'ان ایام کی کوئی بھی یادداشت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک میں اپنی بیوی وقار النسا نون کا تذکرہ شامل نہ کروں۔ انھوں نے ہماری گرفتاریوں کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورتوں کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ اس دفعہ کے تحت پانچ سے زائد افراد کا اجتماع ممنوع تھا۔'قانون کی خلاف ورزی کی بنا پر انھیں کئی بار جیل جانا پڑا۔ ہر جلوس کے بعد انھیں چند دوسری خواتین کے ساتھ جیل پہنچا دیا جاتا اور پھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ایک دن پولیس انھیں چند دوسری عورتوں کے ساتھ ایک بس میں بٹھا کر شہر سے سات آٹھ میل دور لے گئی وہاں سے کہا گیا کہ گاڑی سے نیچے اتریں، جب انھوں نے اترنے سے انکار کر دیا تو بس کے اندر گیس کے بم پھینک کر دروازے بند کر دیے گئے۔ وہ اور کچھ دوسری عورتیں بے ہوش ہو گئیں۔'وہ لکھتے ہیں کہ 'لاہور کی چند خواتین ان دنوں جیل کے صدر دروازے پر رات دن پہرا دیتی تھیں اور کچھ خواتین مظاہرین کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔
ان کے پاس کاریں ہوا کرتی تھی، چنانچہ جب پولیس کی گاڑی مظاہرین کو بھر کر کسی طرف کو روانہ ہوتی تو یہ کارکن خواتین فوراً ان کا پیچھا کرتیں اور جب پولیس انھیں شہر سے دور لے جا کر چھوڑتی تو وہ انھیں کاروں میں بٹھا کر لے آتی تھیں۔ وقار النسا اور ان کے ساتھیوں کو میرا بڑا بیٹا نور حیات کار میں واپس لایا تھا۔ فیروز خان نون بعد ازاں ہندوستان کے وزیر دفاع کے منصب پر فائز ہوئے مگر 1945 میں وہ مسلم لیگ کے لیے کام کرنے کی غرض سے اس عہدے سے استعفیٰ دے کر لاہور آ گئے جہاں بیگم وقار النسا نون نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیا۔'نورالصباح بیگم نے اپنی کتاب 'تحریک پاکستان اور خواتین' میں لکھا ہے کہ 'سنہ 1947 میں فیروز خان نون نے ضلع کانگڑا میں اپنی اہلیہ کے قیام کے لیے ایک خوب صورت بنگلہ خریدا۔ ان دنوں کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ لوگوں کو اپنی آبائی جائیدادوں کو چھوڑ کر جانا پڑے گا اور یہ جائیدادیں یا تو تباہ کر دی جائیں گی یا وہاں کی حکومت ان پر قبضہ کر لے گی۔نھوں نے خواتین کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور ان میں جوش و ولولہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا
مارچ 1940ء کا سورج ایک ایسے ناقابل فراموش دن کا اجالا لے کر طلوع ہوا، جس نے مسلمانانِ ہند کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ لاہور کے اقبال پارک میں منظور کی گئ قرار دار کی بدولت اس دن کو پاکستانی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تحریکِ پاکستان میں کس طرح مسلسل جدوجہد کے ذریعےمسلمانوں نے انگریزوں اور ہندؤں کی ایذارسائی سے نجات حاصل کی۔تحریکِ پاکستان میں مردوں کی طرح خواتین کا کردار بھی خاصا نمایاں رہا ہے۔ فاطمہ علی جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، رعنالیاقت علی خان اور فاطمہ صغریٰ کے شانہ بشانہ بے شمار خواتین تھیں جنھوں نےاپنی زندگیاں جدوجہدِ پاکستان کے لیے وقف کیں۔اس طرح خواتین کی فعال شرکت نے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔
آج کی تحریر میں تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین پر بات کرتے ہیں۔وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے مگر گوادر پر انہوں نے بہت سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ اگر اس وقت انہوں نے گوادر خریدا نہ ہوتا تو آج پاکستان کا نقشہ نامکمل ہوتااور پاکستان جغرافیائی طور انتہائی کمزور ہوچکا ہوتا ۔اس بات کو ذرا اس زاویہ سے دیکھیں کہ کشمیر پاکستان کی رگ ہے جس کو ابھی تک دشمن سے نہیں چھڑوایا جاسکااورہمارادشمن کشمیر پر قبضہ کرکے پاکستان کو جس انداز میں نقصان پہنچا رہا ہے اگر گوادر بھی ملک فیروز خان نون نے حاصل نہ کیا ہوتا تو افغانستان ،بلوچستان،سندھ ،خلیجی ممالک اور ایران سے اٹھنے والی بہت سی سازشیں پاکستان کولپیٹ میں لئے رکھتیں ۔چھیالیس بلین سے تیار ہونے والی سی پیک کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا ۔
بیگم وقار النساء نون حقیقی معنوں میں تحریک پاکستان کی سچی سپاہی تھی
جواب دیںحذف کریں