جمعرات، 25 ستمبر، 2025

حضرت جعفر طیار کی غزوۂ موتہ میں شرکت و شہادت

 

حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی غزوۂ موتہ میں شرکت  و شہادت -جما دی الاول سن آٹھ  ہجری میں موتہ پر فوج کشی ہوئی،حضور نبی کریم ﷺ نے فوج کا علم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عطا کر کے فرمایا ؛؛اگر زید (رضی اللہ عنہ) شہید ہوں تو جعفر ( رضی اللہ عنہ ) اور اگر جعفر (رضی اللہ عنہ ) بھی شہید ہوں تو عبداللہ ابن رواحہ (رضی اللہ عنہ) اس جماعت کے امیر ہوں گے۔۔۔(بخاری شریف کتاب المغازی) حضور نبی کریم ﷺ اس غزوہ کے انجام و نتیجہ سے آگاہ تھے، اسی لئے فرمایا کہ اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہوں تو جعفر رضی اللہ عنہ علم سنبھالیں ،اگر وہ بھی شہید ہوں تو عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ انکی جگہ لیں ۔۔۔(طبقات ابن سعد)موتہ پہنچ کر معرکۂ کار زار گرم ہوا، تین ہزار غازیانِ اسلام کے مقابلہ میں غنیم کا ایک لاکھ ٹڈی دل لشکر تھا،امیر فوج حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ گھوڑے سے کود پڑے اور علم کو سنبھال کر غنیم کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے ،دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا،تیغ و تبر،تیر وسنان کی بارش ہو رہی تھی،یہاں تک کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا،دونوں ہاتھ بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر اس مجاھدِ اسلام نے اس حالت میں بھی توحید کے جھنڈے کو سرنگوں ہونے نہ دیا(اسدالغابہ) بالآخر شہادت کا جام نوش فرمایا


 حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بھی اس جنگ میں شریک تھے،فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی لاش کو تلاش کر کے دیکھا تو صرف سامنے کی طرف پچاس(50) زخم تھے،تمام بدن کے زخموں کا شمار تو نوّے (90) سے بھی متجاوز تھا،لیکن اُن میں کوئی زخم پشت پر نہ تھا (بخاری شریف ) اللہ اکبر کبیرا-حضور نبی کریم ﷺ کا حزن و ملال ۔!میدانِ جنگ میں جو کچھ ہو رہا تھا ،اللہ تعالی کے حکم سے حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے تھا،چنانچہ خبر آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال بیان فرمایا۔اس وقت آپ ﷺ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور روئے انور پر حزن وملال کے آثار نمایاں تھے( اسدالغابہ)حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی اور  بچو ں کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا رہی تھی کہ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا جعفر کے بچوں کو لاؤ،میں نے ان کو حاضرِ خدمت کیا، تو آپ ﷺ نے آبدیدہ ہو کر ان کو پیار فرمایا ،میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں,حضور ﷺ آبدیدہ کیوں ہیں


   کیا جعفر (رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں( رضی اللہ عنھم) کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے،فرمایا ہاں! وہ شہید ہو گئے ،یہ سن کر میں رونے لگی۔۔۔محلہ کی عورتیں میرے اردگرد جمع ہو گئیں،حضور نبی کریم ﷺ واپس تشریف لے گئےاور ازواجِ مطہرات(رضی اللہ عنھن) سے فرمایا کہ آل جعفر (رضی اللہ عنہ) کا خیال رکھنا،آج  انہیں شدید صدمہ ہے خاتونِ جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنھا کو بھی اپنے عمِ محترم کی مفارقت کا شدید غم تھا،شہادت کی خبر سُن کر بادیدۂ تر واعماہ! واعماہ! کہتے ہوئے بارگاۂِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئیں،حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! بیشک ! جعفر رضی اللہ عنہ جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہیئے،آپ ﷺ کو عرصہ تک شدید غم رہا،یہاں تک کہ روح الامین نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالی نے جعفر ( رضی اللہ عنہ ) کو دو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلہ میں دو نئے بازو عنایت کیے ہیں ،جن سے وہ ملائکہ جنت کے ساتھ مصروفِ پرواز رہتے ہیں ۔(مستدرک حاکم) چنانچہ ذوالجناحین اور طیار ان کا لقب ہو گیا۔(رضی اللہ عنھم ورضو عنہ ) حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے فضائل و محاسن -حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کشادہ دست و فیاض تھے،غرباء و مساکین کو کھانا کھلانے میں انکو خاص لطف حاصل ہوتا تھا ،


اسی لئے حضور نبی کریم ﷺ ان کو ابو المساکین کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے،حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اکثر بھوک کے باعث پیٹ کو کنکروں سے دبائے رکھتا تھا اور آیت یاد بھی رہتی تو اس کو لوگوں سے پوچھتا پھرتا  کہ شاید کوئی مجھ کو اپنے گھر لے جائے اور کچھ کھلائے لیکن میں نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو مسکینوں کے حق میں سب سے زیادہ بہتر پایا ، وہ ہم لوگوں (اصحاب صفہ رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین) کو اپنے گھر لے جاتے تھے،اور جو کچھ ہوتا تھا ،سامنے لا کر رکھ دیتے تھے،یہاں تک کہ بعض اوقات گھی یا شہد کا خالی مشکیزہ تک لا دیتے اور اسکو کاٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے اور ہم اس کو چاٹ لیتے تھے۔(بخاری شریف )حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کا پایہ نہایت بلند تھا ،خود حضور نبی کریم ﷺ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ "جعفر" (رضی اللہ عنہ)! تم میری صورت وسیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو۔(بخاری شریف)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس قدر نبی (علیھم السلام) گزرے ہیں ان کو صرف سات رفیق دیئے گئے تھے ،لیکن میرے رفقائےِ خاص کی تعداد چودہ(14) ہے ، ان میں سے ایک جعفر (رضی اللہ عنہ) بھی ہیں۔۔

1 تبصرہ:

  1. اللہ جنت کے ہرے بھرے باغوں میں جگہ عطا فرمائے جعفر طیار اور اسلام کے تمام شہداء کو آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر