مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پردادا جنابِ ہاشم کے ایک فرزند جنابِ اسد بن ہاشم بھی تھے۔ حضرت فاطمہ بنت اسد جنابِ ہاشم کے اسی فرزند کی بیٹی تھیں۔ فاطمہ بنتِ اسد کا نکاح اپنے چچا زاد ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم سے ہوا۔ گویا بنی ہاشم کی ایک شاخ بنی عبدالمطلب تھی تو دوسری شاخ بنی اسد تھی۔ مولا علی کا ددھیال بنی عبدالمطلب تھا اور ننھیال بنی اسد۔ یوں مولا علی علیہ السلام نجیب الطرفین ہاشمی تھے۔ اسد بن ہاشم قریش کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ حجاج کو کھانا کھلانا بنی ہاشم کی ذمہ داری تھی۔ اسد اس فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ایثار اور ہمدردی کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ سخاوت کے حوالے سے پورے عرب میں مشہور تھے۔جناب اسد بن ہاشم عرب کے ان شرفاء میں سے بھی تھے جو دینِ ابراہیمی پر قائم تھے اور بت پرستی سے بیزار تھے۔ آپ کا انتقال رسول اللہ ص کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔ بعثتِ نبوی کے بعد سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں بنی اسد پیش پیش تھےآپ سلام اللہ علیہا کوقبر مبارک میں نبئ مکرم نے خود اتارا - آپ کو اپنی قمیض کا کفن دیا آپ کی قبر مبارک میں لیٹ کر اس کی کشادگی دیکھی سبحان اللہ
حنین بہت فصیح شاعری بھی کرتے تھے۔ اپنے والد کی طرح توحید پر قائم تھے۔حنین کے دو فرزند عبداللہ بن حنین اور عبدالرحمان بن حنین بھی صحابی ہیں اور کتبِ احادیث میں ان سے روایات بھی مروی ہیں۔ جناب اسد کی ایک دوسری بیٹی یعنی فاطمہ بنت اسد س کی ایک بہن، مولا علی ع کی خالہ خلدہ بنتِ اسد تھیں۔ خلدہ رض اور ان کی بیٹی امِ سائب بھی سابقون الاولون میں سے ہیں۔ مادرِ مولا علی ع اس خاندان کی شہزادی تھیں۔ رسولِ خدا ص سے آپ کا رشتہ چچی کا بھی تھا اور پھپھی کا بھی کیونکہ آپ سلام اللہ علیہا جنابِ عبداللہ بن عبدالمطلب کی چچا زاد بہن بھی تھیں۔ فاطمہ بنت اسد ان چھ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ ص نے ماں کہا ہے۔ ان میں سیدّہ آمنہ سلام اللہ علیہا، جنابِ ام ایمن سلام اللہ علیہا، حلیمہ سعدیہ رض، ثویبہ اور امِ ابیہا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی شامل ہیں۔ ان خواتین میں رسول اللہ ص کا سب سے زیادہ وقت ام ایمن س اور فاطمہ بنت اسد س کی محبت کی چھاؤں میں گزرا۔
فاطمہ بنت اسد ان چھ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ ص نے ماں کہا ہے۔ ان میں سیدّہ آمنہ سلام اللہ علیہا، جنابِ ام ایمن سلام اللہ علیہا، حلیمہ سعدیہ رض، ثویبہ اور امِ ابیہا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی شامل ہیں۔ ان خواتین میں رسول اللہ ص کا سب سے زیادہ وقت ام ایمن س اور فاطمہ بنت اسد س کی محبت کی چھاؤں میں گزرا۔ جب جنابِ عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو آپ وصیت کرگئے کہ میرے بعد ابوطالب بنی ہاشم کے سردار ہوں گے اور محمد ص کی کفالت کے ذمہ دار بھی۔ یوں آٹھ برس کی عمر میں رسولِ خدا ص ابوطالب کے گھر آگئے اور نکاح ہونے، یعنی پچیس برس کی عمر تک وہیں رہے۔ گویا رسالتماب نے سترہ سال تک فاطمہ بنت اسد س کی مادرانہ شفقت کی چھاؤں میں زندگی بسر کی۔ خدا کے حبیب ص فاطمہ بنت اسد کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر جوان ہوئے۔ اس وقت تک
مولا علی ع کی ولادت نہیں ہوئی تھی مگر ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد س کی دیگر اولاد موجود تھی۔
مولا علی ع کے تین بڑے بھائیوں اور تین بہنوں کا تذکرہ تاریخ اور رجال کی کتب میں ملتا ہے۔ فاطمہ بنت اسد اپنی اولاد سے زیادہ خیال رسول اللہ ص کا رکھتی تھیں۔ کھانے میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر حصہ رسول اللہ ص کے لیے نکال کر رکھتیں۔ سب سے بہتر اور پرسکون بستر اپنے یتیم بھتیجے کو دیتیں۔ ابوطالب یمن، شام اور یثرب کے تجارتی سفر کرکے آتے تو اہل خانہ کے لیے بھی کپڑے لاتے۔ حضرت فاطمہ بنت اسد سب سے بہتر کپڑا نبی علیہ السلام کے لیے علیحدہ کردیتیں. جنابِ ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد کے درمیان غیر معمولی مثالی محبت تھی۔ عرب میں تعددِ ازدواج عام تھا اور اکثر مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے لیکن ابوطالب نےحضرت فاطمہ بنتِ اسد کے سوا کسی سے عقد نہیں کیا۔ جب جنابِ حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو آپ وصیت کرگئے کہ میرے بعد ابوطالب بنی ہاشم کے سردار ہوں گے اور محمد ص کی کفالت کے ذمہ دار بھی۔ یوں آٹھ برس کی عمر میں رسولِ خدا ص ابوطالب کے گھر آگئے اور نکاح ہونے، یعنی پچیس برس کی عمر تک وہیں رہے۔
گویا رسالتماب نے سترہ سال تک حضرت فاطمہ بنت اسد س کی مادرانہ شفقت کی چھاؤں میں زندگی بسر کی۔ خدا کے حبیب ص فاطمہ بنت اسد کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر جوان ہوئے۔ اس وقت تک مولا علی ع کی ولادت نہیں ہوئی تھی مگر حضرت ابوطالب اورحضرت فاطمہ بنت اسد س کی دیگر اولاد موجود تھی۔ مولا علی ع کے تین بڑے بھائیوں اور تین بہنوں کا تذکرہ تاریخ اور رجال کی کتب میں ملتا ہے۔حضرت فاطمہ بنت اسد اپنی اولاد سے زیادہ خیال رسول اللہ ص کا رکھتی تھیں۔ کھانے میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر حصہ رسول اللہ ص کے لیے نکال کر رکھتیں۔ سب سے بہتر اور پرسکون بستر اپنے یتیم بھتیجے کو دیتیں۔ حضرت ا بوطالب یمن، شام اور یثرب کے تجارتی سفر کرکے آتے تو اہل خانہ کے لیے بھی کپڑے لاتے اور بی بی فاطمہ بنت اسد سب سے اچھا پیرہن حضرت محمد مصطفےٰ کے لئے رکھتی تھی -اللہ آپ سلام اللہ علیہا پر تاابد اپنی ٹھنڈی چھاؤ ں کا سایہ رکھے آمین۔
اللہ کریم و کارساز بی بی فاطمہ اسد سلام اللہ علیہا پر اپنی رحمت نازل کرے آمین
جواب دیںحذف کریں