خاموش قاتل کہلانے والی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ بے مز ہ گیس ہے جس کو سونگھا یا چکھا نہیں جا سکتا۔ اس کا حملہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بند جگہ میں جیسے گھر یا گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کی معمولی مقدار انسانی جانوں کے زیاں کا باعث ہوتی ہے۔یہ ایک زہریلی گیس ہےکاربن مونو آکسائڈ گیس یا سیال پٹرولیم گیس کے نامکمل طور پر جلنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔آپ اس کی بو محسوس نہیں کر سکتے ہیں اس کا رساؤ صحیح سے نہ لگائے گئے، ٹھیک طور سے مرمت نہ کیے گئے یا ناقص دیکھ بھال کیے گئے گیس کے آلات نیز باد کشوں، چمنیوں اور مسدود سوراخوں سے ہو سکتا ہے۔یک الارم آپ کی زندگی بچا سکتا ہے۔
یہ ایک خاموش قاتل ہےکاربن مونو آکسائڈ کو سانس کے ذریعہ اندر لینے سے، چاہے تھوڑی ہی مقدار میں، آپ کے جسم میں آکسیجن کی گردش رک جاتی ہے۔ اگر آپ کو گیس کی بو محسوس ہو یا آپ کو کاربن مونوآکسائڈ کے زہریلے پن کا شبہہ ہو، تو گیس ایمرجنسی سروس کو فوری طور پر کال کریں۔طویل مدت میں، اس کی وجہ سے آپ کی صحت کو سنگین نقصان لاحق ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔امریکی ادارے کنزیومر پروڈکٹ سیفٹی کمیشن کا کہنا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ کی ہلکی مقدار سے سر میں درد، تھکان، سانس لینے میں کمی، متلی، چکر محسوس ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ مقدار انسانی جسم میں جانے سے قے، اعصاب کے توازن کا بگڑنا، ہوش کھونا اور موت واقع ہو جانا شامل ہے۔اندرونی کمبشن انجنوں سے چلنے والی مصنوعات اور آلات جیسے پورٹیبل جنریٹر، کاریں، لان کی گھاس کاٹنے والی مشینیں اور پاور واشر وغیر بھی کاربن مونو آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔
موٹر گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ اگزاسٹ کے نظام میں لیک کی وجہ سے پیدا ہو سکتے ہیں یا پھر اگر کسی وجہ سے اخراج کا نظام بند ہو جائے تو یہ گاڑی کے اندر آنے لگتے ہیں۔اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟اسی لیے عام طور پر منع کیا جاتا ہے کہ گاڑیوں کا ایئر کنڈیشنر چلا کر اور تمام دروازے بند کر کے نہ سوئیں کیونکہ لیکیج کی صورت میں یہ عمل مہلک ہو سکتا ہے۔عام حالات میں بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ زہر سے بچنے کے لیے آپ کار کے اخراج کے نظام کی سال ں ایک بار ضرور جانچ کرائیں۔ و آن نہ کریں، ہمیشہ دروازے کھول دیں تاکہ تازہ ہوا مل سکے۔اور اگر آپ گاڑی کے پچھلے دروازے (ٹیل گیٹ) کو کھولیں تو کار کی کھڑکیوں اور شیشوں کو بھی کھول دیں تاکہ ہوا باہر نکلتی رہے کیونکہ اگر صرف پچھلا دروازہ کھلا ہو گا تو عین ممکن ہے کہ اگزاسٹ سے نکلنے والی گیس کار کے اندر کھنچی چلی آئے۔
جہاں تک مری کا معاملہ ہے اس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ گاڑیاں برف میں اتنی زیادہ پھنسی ہوئی ہیں کہ سائلنسر کا منھ تک بند ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ اس کے علاوہ باہر کی سردی سے بچنے کے لیے گاڑی کے انجن کا آن رکھنا بھی فطری نظر آتا ہے۔ایسے میں کاربن مونو آکسائیڈ کا گاڑی میں پھیل جانا اور گاڑی کے اندر کی فضا کا زہر آلود ہو جانا فطری ہو جاتا ہے۔کملیش سنکھ تاؤ لکھتے ہیں کہ ’مری میں جو ہوا وہ غلطی ہم عام طور پر دہراتے ہیں۔ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کار کے ہیٹر کو آن رکھتے ہیں۔ برف کی تہیں اگزاسٹ کو بند کر دیتی ہیں۔ اگزاسٹ کی گیس کار کے کیبن میں بھر جاتی ہے۔‘’کاربن مونوآکسائیڈ کا زہر میٹھا اور اس کی رفتار دھیمی ہوتی ہے اور اس کے شکار کو پتا بھی نہیں چلتا اور انسان موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
‘پاکستان میں نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی نے لکھا ہے کہ ’خدا نہ کرے اگر آپ کی کار برف میں پھنس جائے تو اور آپ کا انجن چل رہا ہو تو آپ کھڑکی کو ہلکے سے کھول کر اگزاسٹ سائلنسر پائپ سے برف صاف کر دیں۔‘’برف کی قبر میں دھنس گیا تھا، خوش قسمت تھا بچ گیا‘ جبکہ ڈاکٹر فہیم یونس نے لکھا کہ ’مری ہونے والی اموات ٹھنڈک سے ہوئی ہیں یا کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے؟‘انھوں نے مزید لکھا: ’کاربن مونو آکسائیڈ بے رنگ اور مہلک ہے۔ اگر رکی ہوئی کار برف میں دھنس جاتی ہے تو اگزاسٹ (سائلنسر) بند ہونے سے کار میں سوار کی جلد موت واقع ہو سکتی ہے۔‘انھوں نے لکھا ’یہ سب کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے مرے ہیں اور اس کی وجہ ہوا کا گزر نا ہونا، انجن کا چلتے رہنا اور سائلنسر کا منھ بند ہونا ہے۔ اگر لوگوں نے صرف ذرا سی کھڑکی کھلی رکھتے تو۔‘پوری دنیا میں برف پڑنے سے پہلے تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں موسم کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے اس لیے گھر میں رہیں لیکن مری میں الرٹ جاری کرنے میں بہت دیر کر دی گئی۔اس بارے میں ماہر ماحولیات توفیق پاشا معراج نے بی بی سی کی سحر بلوچ کو بتایا کہ برفباری کی صورت میں انتظامیہ کو سب سے پہلے مری جانے والی سڑکیں بند کرنی چاہیے تھیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں