دین اسلام نے انسان کی پیدائش سے پہلے رشتہ ازواج کے وقت سے ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی تاکید کی ہے اور تربیت اولاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے والدین پر فرض قرار دیا ہے۔
اب اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمیں ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے۔کائنات میں مولائے کائنات ؑ اور سیدہ کونین ؑ کے گھرانے سے بڑھ کر اور کس کا گھرانہ ہو سکتا ہے جو تربیت اولاد کے حوالے سے تمام اولین و آخرین کے لئے نمونہ عمل ہو۔ کیونکہ اس گھرانے میں مولی المتقین و ایمان کل علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فخر موجودات عالم باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔
یہی وہ گھرانہ ہے جس سے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے جوانان جنت کے سردار اور جناب زینب ؑ و ام کلثوم ؑجیسی عظیم ہستیاں افق عالم پر منور ہوئیں ۔ آج اگر والدین اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ایمان و اخلاق و نیک کردار میں کمال پر پہنچانا چاہتے ہیں تو در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی اولاد کی پرورش کے سنہرے اصولوں اور عملی نمونوں کو اخذ کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء س کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اولاد کی تربیت زبانی وعظ و نصائح سے زیادہ اپنے عمل و کردار سے کیا کرتیں تھیں۔
۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے "واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین "” بے شک میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں
حدیث کساءسے ہم کو درس ملتا ہے کہ ہم اپنے معصوم بچّوں سے کس طرح مخاطب ہوں- کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔
"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”
جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔
آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دین مقدس اسلام کی نگاہ میں ایمان و کردار کے لحاظ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کس حد تک اہم ہے اور اس کی کس قدر ضرورت ہے اس کو واضح کرنے لئے ہم قرآن و حدیث سے چند نمونے یہاں پیش کرینگے۔ ۔ رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن
"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”تربیت اولاد کس قدراہم ترین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم
(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما”
سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے
کائنات میں سیدہ کونین جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ذات گرامی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی حیات طیبہ کو حدود و قیود کے بغیر عالمین کی مخلوقات کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ خداون عالم ہم سب خواتین کو ہماری بیٹیوں کو اور آنے والی نسلوں کی بیٹیوں کو بہ بہ پاک سلام اللہ علیہا کے نقش مبارک پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں