اتوار، 1 جون، 2025

قدرت کبھی خاموش نہیں رہتی ہے

 

 نظام قدرت ہے کہیں سمندر میں جوار بھاٹا ہے تو کہیں دریا اپنے رخ بدل رہے ہیں  تو کہیں بلند و بالا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہے ہیں  میں نے ابھی حال ہی میں  انٹر نیٹ پر  ایک وڈیو دیکھی جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ  سوئٹزرلینڈ کی ایک پوری بستی کیسے  دنیا کے  نقشے سے اچانک غائب ہو رہی ہے۔یہ  سانحہ سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع خوبصورت پہاڑی بستی "بلاتن"میں پیش آیا ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، وادی "بِرش" کے گلیشیئر میں شدید دراڑیں اور کمزوری پیدا ہونے کے بعد برف اور مٹی کی  چٹانوں کا ایک عظیم تودہ اچانک نیچے آ گرا، جس نے بلاتن گاؤں کے ہر گھر کو  مکمل طور پر اپنے نیچے دفن کر دیا۔ یہ تودہ کئی میٹر موٹا اور دو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا۔خوش قسمتی سے، مقامی حکام نے جدید سرویلیئنس سسٹمز کے ذریعے زمین میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور ممکنہ خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا، جس کے باعث حادثے سے دو دن قبل ہی گاؤں کے تمام مکینوں کو بحفاظت منتقل کر لیا گیا۔فرانسیسی روزنامے "لوباریزیان" نے اس المیے کو ایک "غیر معمولی قدرتی سانحہ" قرار دیا ہے۔ -اس سانحہ میں انسانی جانوں کا زیاں اس لئے نہیں ہوا کہ سوئس حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں سےپہلے ہی بحفاظت نکال  لیا تھا 


 ماحولیاتی ماہر رافائیل لودووِک کے مطابق، اس پیمانے کا واقعہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، وہ بھی صرف ہمالیہ یا اینڈیز جیسے پہاڑی سلسلوں میں، نہ کہ یورپ کے قلب میں واقع الپس جیسے نسبتاً مستحکم پہاڑی سلسلے میں۔ لودووِک نے مزید انکشاف کیا کہ  گلیشیئر کی چوٹی میں غیر معمولی دراڑیں اور جھکاؤ نوٹ کیا گیا تھا، جو بالآخر اس ہولناک سرکنے کا سبب بنا۔خطرے کی دوسری لہر؟ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پہاڑ سے نیچے آنے والی چٹانوں اور برف نے دریائے "لونزا" کو تقریباً دو کلومیٹر تک بند کر دیا ہے، جس سے وہاں ایک مصنوعی جھیل بن چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس جھیل کو قابو میں نہ رکھا گیا تو اس کے پھٹنے سے ایک تباہ کن مٹی اور پانی کا سیلاب آسکتا ہے۔ سوئس حکام نے فوری طور پر فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ مصنوعی جھیل سے پانی نکالنے کے لیے پمپوں اور پائپوں کے ذریعے کام کر سکیں۔


لودووِک نے کہا: "جیسے جیسے برف پگھلے گی، پانی کی مقدار بڑھے گی اور اگر نکاسی کا مؤثر بندوبست نہ ہوا تو وادی کے نچلے علاقے شدید طوفانی سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔"ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات -ماہرین کے مطابق، اس سانحے کی جڑیں "کلائمٹ چینج" یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے جا ملتی ہیں۔ الپس میں گہرائی تک جما ہوا برفانی جُبہ(permafrost) تیزی سے پگھل رہا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے میں چٹانوں کے سرکنے اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے جیسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی خبردار کیا ہے۔ رافائیل لودووِک کے مطابق "ہم فرانس کے الپائن علاقوں میں بھی عدم استحکام کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ نومبر میں فرانس کے وانویز سلسلے میں ''مونٹ بوری'' نامی پہاڑ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبا تودہ گرا تھا، جس میں سینکڑوں ٹن چٹانیں نیچے آ گریں۔"


-اب یہ دوسری  کہانی ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے   

عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیاسنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ 


پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ کیونکہ  ہماری حکومت نے رہائشیوں کی جانوں کی حفاظت سے چشم پوشی برتی -عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ انکے  کھیت کی زمین ایک جگہ سے اوپر ہو گئ  اور تھا اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسا لگ رہا   تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہےپہاڑ گرنےاور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں


تحریر و تلخیص  بقلم خود

1 تبصرہ:

  1. ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نصف قطر 6,378 کلو میٹر ہے۔ زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے لیکن اندرونی پرتین ا نتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں۔ جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیں اور یہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر