بدھ، 1 اکتوبر، 2025

نگاہوں کو مسحور کر دینے والا سوات کا سفید مرمریں محل

  میاں گل عبدالودود (المعروف بادشاہ صاحب) بہت خوبیوں کے م بڑے بازوق  صاحب اقتدار انسان  تھے۔  سفید محل کی تعمیر کے حوالے سے شاہی خاندان کے میاں گل شہر یار امیر زیب باچا (بادشاہ صاحب کا پڑپوتا) کا کہنا ہے کہ 'در اصل بادشاہ صاحب ہندوستان گئے تھے جہاں ایک دن ان کا گزر راجھستان کے علاقہ سے ہوا۔ وہاں انھوں نے سفید  سنگ مر مر  دیکھا۔ ان دنوں راجھستان   کے  علاقے میں یہ سنگ مر مر  بہت شہرت رکھتا تھا۔ بادشاہ صاحب نے راجھستان کے اس وقت کے مہاراجا کا محل دیکھا جس میں اسی سفید  سنگ مر مر  کا استعمال کیا گیا تھا۔ بادشاہ صاحب اس محل سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ بعد میں جے پور سے اسی سفید سنگ مرمر  کو لایا گیا'۔سفید محل کے اندر سے صحن کا منظرایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ سفید محل میں استعمال ہونے والا ماربل دراصل وہی  سنگ مر مر  ہے جو تاج محل (آگرا، ہندوستان) میں استعمال ہوا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ فلور پر قائم کمر ےریاستی دور میں وزیروں اور مشیروں کے لیے مخصوص تھے۔سفید محل کے اندر لگے ریاستی دور کے برقی قمقمے اور پنکھے جو اَب نایاب ہیں۔بادشاہ صاحب کا ٹیبل لیمپ بادشاہ صاحب کا ٹیلی فون۔اور بادشاہ صاحب کے وقت کی نایاب اشیاء موجود ہیں 


’مرغزار‘‘ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ سیاح صرف قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے مرغزار کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہاں پر قائم ریاست سوات دور کی ایک تاریخی عمارت سفید محل (1941ء) کی سیر کرنے بھی جاتے ہیں۔کیونکہ سیاح اگر سوات آیا اور اسنے مرغزار کی حدود میں اس نایاب سفید محل کی سیر نہیں کی تو پھر اس نے  سوات کی سیر کو ادھورا چھوڑا مینگورہ: جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب (1881ء تا 1971ء) کے حکم سے جب سنہ 1941 کو سفید محل کی تعمیر مکمل ہوئی، تو اس محل کی بدولت مرغزار کا علاقہ ایک طرح سے ریاست سوات کے موسم گرما کا دارالحکومت ٹھہرا۔ گرمیوں میں یہاں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔ آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سفید محل مرجع خلائق ہے۔مگر سفید محل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا اولین نام ’’موتی محل‘‘ تھا۔



سفید محل کے اندر دیوار پر ٹانکی گئی میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کی ایک نایاب تصویر بھی موجود ہے۔سفید محل تاریخی حوالہ سے اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں سے ریاستی دور میں رعایا کے مستقبل کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔شہر یار امیر زیب باچا کے مطابق جب محل تعمیر ہوا، تو گرمیوں کے موسم میں حکومت کے امور سیدو شریف کی بجائے مرغزار میں طے ہوتے تھے۔ باالفاظ دیگر سردیوں میں ریاست سوات کا دارالخلافہ سیدو شریف اور گرمیوں میں سفید محل کی بدولت مرغزار ہوا کرتا تھا۔ریاستی دور کی تصاویر جن میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی تصاویر نمایاں ہیں۔شہر یار کا کہنا ہے کہ مین بلڈنگ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو اس میں ایک ڈرائننگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ کا اپنا کمرہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے احاطے میں دو تین درجوں میں کمرے بنائے گئے ہیں۔ جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے، تو ان کے وزیر مشیر اور خان خوانین ان کے ہمراہ ہوتے۔



دوسرے درجے پر تعمیر شدہ کمروں میں یہی وزیر مشیر اور خان خوانین ہوتے اور تیسرے درجے میں تعمیر شدہ کمروں میں فیملی ممبران ہوا کرتے تھے۔بادشاہ صاحب کے بیڈ روم کے متصل ان کے خاص مہمانوں کے لیے مخصوص شدہ کمرہ۔ یہ وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ اس وقت اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی۔س عمارت کے تین حصے ہیں۔ محل کا پہلاحصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرا حصہ جس کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں،وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا اور آخری حصہ خواتین اور انگریزوں کے لیے مخصوص تھا جب کہ محل کی بیک سائٹ   کی جگہ  با ورچیوں اور دیگر خدام کے لیے تھی ۔بادشاہ چوں کہ مذہبی شخصیت تھے، اس لیے جا بجا مساجد نظر آتی ہیں۔ سفید محل کے کھلے علاقے میں جو مسجد تعمیر کی گئی ہے، اس میں بادشاہ نماز پڑھنے اور قرآن شریف کی تلاوت کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن پھر    بادشاہ  صاحب  کی وفات کے بعد یہ  نایاب محل  ان کے وارث کے حصے میں آیا۔ جنہوں نے اس کی  دیکھ بھال کی اور رینو ویٹ  کر  کے  اس کو ہوٹل میں کنورٹ کر دیا  اور  اب  سفید محل  مرغزار آ نے  والے سیاحوں کےلئے ایک اچھا پکنک پوائنٹ بن چکاہے ۔‘‘ 

1 تبصرہ:

  1. یہ دنیا کے بازوق لوگوں کا طریقہ ہے کہ بہترین عمارات تعمیر کرتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر