گھر پہنچ کر میں نے گھر والوں کو بتایا تو ان کو بھی اشتیاق ہوا کہ ہم بھی جلوس دیکھنے جائیں گے ، میں نے بتایا کہ اب سب بند ہوچکا ہے، جلوس ختم ہوچکا، لہٰذا کچھ نہیں ملے گا، اور شاید اب بازار بھی بند ہوچکا ہو۔ لیکن پھر بھی ہوا خوری میں کوئی مضائقہ نہیں تو گھر پہنچ کر دوبارہ ہوا خوری کے لیے گھر والوں کے ہمراہ مرکزی چرچ کی راہ لی۔ ابھی چرچ سے کچھ فاصلے پر تھے کہ دوبارہ ڈھول و بینڈ کی آواز سنائی دی، مجھے حیرت ہوئی کہ اب یہ کیا!!خیر قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور جلوس چلا آرہا ہے، اور اس کے ساتھ نیا تعزیہ ہے جس پر کوئی خاتون نہیں بلکہ ایک تابوت ہے،
باقی جلوس کی ترتیب کم و بیش وہی ہے۔یعنی وہی ماتمی لباس 'وہی تنظیم 'وہی احترام ' اس جلوس کی بدولت اب یہ معلوم ہوا کہ اس دن شہر میں ایک نہیں بلکہ کئی جلوس نکلتے ہیں، اور سب اپنے اپنے علاقوں سے نکلتے ہیں، اور ان کا اختتام بھی الگ الگ وقت میں لیکن ایک مقام پر ہوتا ہے یعنی مرکزی چرچ پر، جہاں فرڈیننڈ اور ازابیلا کی قبریں ہیں۔ بلکل کراچی کی طرز پر جہاں ہر جلوس کا اختتام نشتر پارک پر ہوتا ہے
اس جلوس کو بھی قریب سے دیکھا، اور اس کا اختتام تقریباً رات 12 بجے مرکزی چرچ میں ہوا تو تمام تقریبات بھی اگلے دن تک کے لیے اختتام پزیر ہوگئیں۔راستے میں کھلی دکانیں بھی بند ہونا شروع ہوگئیں اور لوگوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ کیونکہ اس تہوار میں پورے اندلس سے لوگ غرناطہ آتے ہیں لہٰذا یہ سیزن ہوٹلز کے لیے بھی بہت کمائی کا ذریعہ بنتا ہے، اس کے علاوہ مقامی دکان داروں کو بھی کاروبار کے مزید مواقع فراہم ہوتے ہیں۔غرناطہ کا یہ تہوار نہ صرف اس بات کی نشانی ہے کہ یورپ میں مذہب اب تک موجود ہے بلکہ اس کی بدولت اس مذہب کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا کام بھی بخوبی انجام دیا جارہا ہے۔ یہ اس حوالے سے اہم ہے کہ جس یورپ میں مذہب و لامذہب کی بحث موجود ہو وہاں بھی مذہب اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ کسی بھی مذہب پر فہم کے ساتھ عمل کرنے والوں کا رویہ زیادہ بہتر اور زندگی کے بارے میں ان کا تصور بلند ہوتا ہے۔ لادینیت کے اس دور میں مذہب کو کسی بھی صورت میں زندہ رکھنا ایک بڑی بات ہے اور میرے نزدیک قابلِ ستائش بھی ہے۔غرناطہ کا آخری دن میرے لیے زندگی کے حسین مشاہدات سے بھرا ہوا تھا… ایسے مشاہدات جو شاید لوگوں کو سالوں میں ہوتے ہیں وہ مجھے اللہ کے فضل و کرم سے ایک رات میں وہ بھی حادثاتی طور پر ہوگئے۔ ان مشاہدات نے صرف مجھے زندگی کو کئی زاویوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا
غرناطہ جانے والے اس سیاح کا نام مجھے نہیں معلوم ہو سکا -اس لئے سیاح سے معذرت بھی اور تحریر عاریتاً لینے کا شکریہ بھی
تجربے زندگی کا نچوڑ ہوتے ہیں
جواب دیںحذف کریں