حتیٰ کہ پیدل بھی اس راستے پر آپ نہیں جاسکتے جو جلوس کی گزرگاہ ہے، تاہم جلوس کی گزرگاہ کے دونوں اطراف اور اس کے پیچھے آپ چل سکتے ہیں۔جلوس ڈھول و بینڈ کی مخصوص آواز پر چلتا اور رکتا تھا۔ یہ رکتا اس لیے تھا کہ اس تعزیے کو اٹھانے والی کوئی گاڑی نہیں تھی بلکہ کچھ نوجوان تھے جو اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، اس کے وزن کی وجہ سے وہ رک جاتے، تھوڑا آرام کرتے اور پھر سفر شروع ہوتا، لیکن جلوس کے رکنے کے دوران بھی تعزیہ ان کے کندھوں سے نہیں اترتا تھا۔وہ کیا طریقہ کار اختیار کرتے، میں نے اس کو جانچنے کی کوشش کی، لیکن بے سود… کیونکہ ان کے اوپر تعزیہ تھا اور چاروں اطراف ایک جھالر لٹک رہی تھی جس سے اندر کا منظر نہیں دیکھا جاسکتا تھا، تاہم ان کے پیر نظر آرہے تھے۔ ساتھ ساتھ اس تعزیے کو گائیڈ کرنے والا بھی باقاعدہ ایک فرد تھا جو ہسپانوی زبان میں ان کو ہدایات دیتا تھا۔
اس فرد کی ہدایات اور مخصوص ضرب کی آواز سے وہ رکتے اور چلتے تھے۔اس تعزیے کے بینڈ کے افراد بھی مکمل یونیفارم میں ایک فارمیشن کے ساتھ چلتے اور رکتے تھے۔ ان کے مختلف سازوں کے ساتھ میوزک کی گائیڈ بھی موجود تھی جس کو رات کی تاریکی میں دیکھنے کے لیے انہوں نے چھوٹی لائٹس اس پر لگائی تھیں۔ اسی طرح تعزیے کی موم بتیاں چلنے سے اگر بجھ جائیں تو اس کے لیے بھی ایک فرد مقرر تھا جو لمبی موم بتی نما کوئی چیز لیے ان کو مسلسل جلاتا رہتا تھا۔ اس کے سامنے ایک فرد زنجیر سے بندھی دھونی سے دھونی دیتا چلا جارہا تھا۔تعزیے کے پیچھے سیاہ لباس میں ملبوس نوعمر لڑکیاں، چھوٹے بچے اور خواتین بھی موجود تھیں جو دو قطاروں میں بڑی موم بتیاں لیے چل رہی تھیں۔اس جلوس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ ایک مکمل فیملی ایکٹیوٹی تھی۔
اس جلوس میں حصہ لینے والوں کے اہلِ خانہ بھی اس جلوس کے ہمراہ چل رہے تھے۔ شاید یہ جلوس طویل ہوتے ہیں، لہٰذا جب جلوس رکتا تو وہ ان کو پانی اور دیگر سامان دینے آتے تھے۔اسی طرح چھوٹے بچے و بچیوں کو بھی اس میں خاص طور پر شریک کروایا گیا اور ان کے اہلِ خانہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ یہ ایک مکمل مذہبی تربیت گاہ کا ماحول تھا کہ جہاں سال میں ایک بار اس کام کو کرنے کے لیے اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کو مصلوب کرنے کی یاد کو تازہ کرنے اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا مکمل اہتمام موجود تھا۔ میں شاید واحد فرد ہوں گا جو اس جلوس کو بغیر کسی مذہبی جذبے کے دیکھ رہا تھا، ورنہ لوگوں کی عقیدت و محبت ان کی نگاہوں سے عیاں تھی۔اس سب کے باوجود کسی ایک فرد نے بھی نہ مجھے روکا کہ میں آگے جاکر تصاویر اور ویڈیوز کیوں بنارہا ہوں، اور نہ ہی مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔ اس معاملے میں ان کی وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
حتیٰ کہ میں ایک موقع پر جلوس کے ساتھ ساتھ اُس مقام تک چلا گیا جو جلوس کا اختتام تھا اور آگے مرکزی چرچ میں صرف تعزیہ اور مخصوص لباس میں ملبوس افراد کو جانے کی اجازت تھی۔ وہاں بھی صرف ایک پولیس والے نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کے آگے تو کوئی بھی نہیں جارہا، تو میں رک گیا۔جلوس کو دیکھ کر مجھے کراچی میں محرم الحرام اور ربیع الاول کے جلوس یاد آگئے۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب معاملہ ہے کہ کس طرح جلوسوں کی یہ روایت برصغیر سے یورپ گئی یا یورپ سے برصغیر میں آئی۔ کیونکہ تمام تر جلوس اپنی جداگانہ حیثیت اور نظریے کے باوجود بھی برتاؤ میں عملاً یکساں نظر آتے ہیں۔میں اس پر سوچ بچار کر ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور گھر والوں نے پوچھا کہ آپ کدھر چلے گئے ہیں، تو گھر کی راہ لی۔ جلوس کیونکہ ختم ہوچکا تھا، لوگ بھی جاچکے تھے اور رات کے11 بج رہے تھے تو میں نے سمجھا کہ اب جو کچھ بھی ہوگا کل ہی ہوگا۔
بلاگ ابھی جاری ہے
بہترین قلم نگاری
جواب دیںحذف کریں