جناب رسول خدا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے منقول ہے کہ جو شخص آخر شب میں اکتالیس مرتبہ سورہ الحمد کی تلاوت کرے گا محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔ بعض نے 15 رمضان و بعض نے 19 رمضان نقل کی ہے۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقی کی ولادت ہوئی امام رضا نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔
آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعوں کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں سے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔
آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔ منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے تا کہ ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے اشتباہ نہ ہو۔ آپؑ کے مشہور القاب، جواد و ابن الرضا ہیں، جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضی اور منتجَب جیسے القاب بھی نقل ہوئے ہیں۔ آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہیں۔ اس کا سبب عباسی حکومت ک طرف سے سیاسی محدودیت، تقیہ اور آپ کی مختصر حیات بیان ہوا ہے۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق، آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے
ازواج -لیکن چونکہ وہ لوگ ان کی بات کو مانتے تھے لہذا ان کی بات سے انہیں اطمینان حاصل ہوگیا۔امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔ یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اور امامؑ نے اس کے لئے حضرت زہراءؑ کا مہر ـ یعنی 500 درہم ـ قرار دے کر اس رشتے کو منظور کیا اور اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپؑ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں بعض مآخذ میں منقول ہے کہ امام جوادؑ نے امام رضاؑ کے سکونتِ خراسان کے دوران ایک بار آپؑ سے ملنے کی غرض سے خراسان کا سفر کی اور اسی وقت مامون نے اپنی بیٹی کا نکاح آپؑ سے کیا۔ابن کثیر کے قول کے مطابق امام جوادؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح 8 سال سے بھی کم عمر میں حضرت امام رضاؑ کے دور میں پڑھا گیا تھا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 315 ہجری میں مامون کی اجازت سے تکریت میں ہوئی۔ اس روایت کو مد نظر رکھا جائے تو اس رشتے کے بارے میں سنہ 202 ہجری اور سنہ 215 ہجری میں منقولہ روایتوں میں کوئی تناقض یا مغایرت نہیں ہے لیکن بغداد میں یحیی بن اکثم کے ساتھ امامؑ کے مناظرے کی روایت ہے۔
اولاد
شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔ البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے امام رضاؑ نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا:۔۔۔هذا أبو جعفر قد أجلسته مجلسي و صيرته مكاني، وقال: إنا أهل بيت يتوارث أصاغرنا عن أكابرنا القذة بالقذة(ترجمہ: یہ ابو جعفر ہیں جس کو میں نے اپنی جگہ بٹھا دیا ہے اور اپنا مقام اسے واگذار کردیا ہے اور فرمایا: ہم اہل بیت ایسا خاندان ہیں جس میں چھوٹے یکسان طور پر (بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان فرق کے بغیر) بڑوں کے وارث بنتے ہیں) ۔ (یعنی جس طرح کہ بڑے علوم کے وارث بنتے ہیں ہمارے چھوٹے بھی ہمارے علوم کے وارث بنتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں