جمعہ، 22 ستمبر، 2023

پیارا پاکستان ۔ تہذیب، ثقافت اورمرکز سیاحت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے  ہیں - دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ ۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ ۔ 

بلوچستان کی ثقافت-کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔ہے۔پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

آج پاکستان میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پختون،سرائیکی اور بلتی سمیت کتنے ثقافتی رنگ ایسے ہیں جو مقامی ہیں اور بہت سے رنگ مہاجر پاکستانی لائے ہیں۔اسی تنوع سے وہ ثقافتی یک رنگی وجود میں آتی ہے جسے پاکستانی ثقافت کہتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ثقافت دراصل اس خطے کی اجتماعی ثقافت کا نام ہے۔اب اگر ہم 14اگست 1947 سے پاکستان کی تاریخ کا آغاز کریںتودراصل یہ ایک عظیم ثقافتی تاریخ کا احیا ہے جو صدیوں پر محیط ہے اورپاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نیا ہونے کے باجود قدیم ترین تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔اس لئے آج ہمیں مصنوعی طورپرکوئی ثقافت پیدا کر نے کی ضرورت نہیں۔تاہم اس پس منظر کے ساتھ،پاکستان ایک نئی شناخت بھی ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ثقافتی رنگا رنگی کو اس طرح ہم رنگ بنائیں کہ وہ قدیم ہونے کے باجود جدید بھی ہو۔یہ کام اگرچہ فطری طور پر ہو تا ہے لیکن اس فطری مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،اگر کوئی شعوری کوشش کی جائے تو اس میں نیا پن پیدا کیاجا سکتا ہے عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ،

 یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔

 ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے ۔ دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر