پیر، 10 فروری، 2025

طلبہ یونینز جنکو آمریت اور ملوکیت کا بھیڑیا کھا گیا 2part

 

سوال: ذوالفقار بھٹو سے آپ کی ملاقات کیسے ہوئی اور آپ پیپلز پارٹی کا حصہ کیسے بنے؟افتخار احمد: ابھی پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی جب میری بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات گورنمنٹ کالج اسٹوڈنٹ یونین کے صدر امان اللہ خان نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں کروائی۔ میں نے بھٹو کی باتوں کو سنا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ایوب خان کے خلاف کوئی جدوجہد کامیاب ہو سکتی ہے تو وہ اسی لیڈر کی قیادت میں ہو سکتی ہے۔ باقی لیڈرز کی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں تھی۔ وہ ہمیں قائل کر گیا کہ ایک نئی سیاسی جماعت کی کیوں ضرورت ہے۔ میں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے چار آنے کی پرچی جمع کروائی جس پر بھٹو نے دستخط بھی کیے۔سوال: طلبہ سیاست میں حصہ لیتے ہوئے آپ کو سب سے پہلے کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟افتخار احمد: یہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ مجھے، شیخوپورہ کے صادق مسیح اور لاہور جی او آر کے علاؤالدین، ہم تین کو گرفتار کیا گیا اور تھانہ مزنگ میں رکھا گیا۔


 اگلے دن عبدالستار نجم اور ایس ایم مسعود مرحوم ہماری ضمانتیں کرانے کے لیے آئے۔ ہم پر الزام عائد کیا گیا کہ ہم لوگوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے تھے۔ ان دنوں نعرہ لگانے پر دفعہ  پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ ۔وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاءالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔اس سلسلے میں این ایس ایف کے سابق رہنما، ڈرامہ نویس، اجوکا تھیٹر کے بانی اور سابق ایم ڈی پی ٹی وی شاہد محمود ندیم سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔موجودہ حکومت طلبہ یونینز پر پابندی ہٹانے کا خطرہ مول نہیں لے گیسوال: آپ نے کالج میں داخلہ کب لیا اور اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں؟شاہد محمود ندیم: میں نے 1963 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ شروع میں ڈبیٹنگ سوسائٹی اور اسٹوڈنٹ یونین میں سرگرم رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیاست میں بھی سرگرم ہوگیا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی جو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم تھی۔


 اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبائے اسلام بھی میدان میں تھے۔ کچھ عرصہ بعد پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سامنے آئی۔ لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم کافی واضح تھی۔ این ایس ایف کا ایک گروپ پرو چائنہ اور دوسرے گروپ کو پرو ماسکو کہا جاتا تھا۔ ان میں آپس میں کافی اختلافات تھے۔ سیاسی طور پر ایک 'چارجڈ' ماحول تھا۔ ایک نکتے پر سب متفق تھے کہ ڈکٹیٹر شپ اور 'اسٹیٹس کو' قبول نہیں۔ اس زمانے کی لیفٹ کی طلبہ تنظیمیں تھیں یا رائٹ کی، سب جنرل ایوب خان کی آمریت سے چھٹکارا چاہتی تھیں۔سوال: آپ نے 1968 میں گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور آپ کے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف آپ کا کیا کردار تھا؟شاہد محمود ندیم: اس وقت نہ صرف ملک پر فیلڈ مارشل ایوب خان کا جابرانہ دور مسلط تھا بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی پروفیسر حمید احمد خان کا سخت دور تھا۔


 وہ ویسے تو دانشور اور انتہائی قابل احترام تھے لیکن ان کی انتظامیہ کا طریقہ ایوب خان والا ہی تھا۔ ان کے زمانے میں ہیڈز آف ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے طلبہ کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگادی۔ وہ بہت بڑی یونین تھی جو لاہور کے علاوہ پورے پنجاب میں سرگرم تھی۔ وہ اپنے آپ کو بیان کرنے کا، انتخابات لڑنے کا، مختلف مکاتب فکر کو اجاگر کرنے کا اور طلبہ کی آواز کو انتظامیہ تک پہنچانے کا پلیٹ فارم تھا۔ یہ پابندی اس کے راستے میں دیوار بن گئی تھی۔میں نے اور کچھ طلبا نے مل کر یونین کی بحالی کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ایوب خان حکومت کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہوا۔ ہمیں جیلوں میں جانا پڑا اور عدالتوں میں ہمارے مقدمات چلے۔ اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا ظہور ہورہا تھا جنھوں نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفی دے کر پیپلز پارٹی بنائی تھی۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو متحرک کررہے تھے۔اس کے ساتھ ہی 1968 میں ایک عالمگیر تحریک شروع ہوگئی جس میں امریکہ کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے طلبا بھی شامل تھے۔


ہمارے ایک سینئر طارق علی برطانیہ گئے ہوئے تھے جو وہاں طلبا تحریک میں سرگرم تھے اور ہم ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے طلبا ہم سے زیادہ منظم تھے۔ ہماری نسل کی وہ تحریک مشرقی پاکستان کے طلبا کے ساتھ آخری مشترکہ کوشش تھی جس کی وجہ سے ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا۔سوال: آپ کے زمانے میں آپ کے ساتھ اور کون سے دیگر اہم طلبا رہنما سرگرم تھے؟شاہد محمود ندیم: ہمارے ساتھ ترقی پسندوں کی طرف پرویز رشید، افتخار احمد، راجا انور، اعصام الحق، افراسیاب خٹک اور عارف کمال تھے۔ دوسری طرف حافظ ادریس کافی سرگرم تھے۔ فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ اسلامی جمعیت طلبا کی ڈنڈا بردار فورس کے سربراہ تھے۔ جاوید ہاشمی بھی تھے جو کبھی لیفٹ اور کبھی سینٹر میں ہوتے تھے۔ جہانگیر بدر پہلے لبرل تھے۔ پھر انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ شہریار راشد انگریزی کے بہت اچھے لکھاری اور ن م راشد کے بیٹے تھے۔ یہ اس زمانے کے مشہور لوگ تھے۔سوال: طلبا تنظیموں کا سوچ کر لڑائی جھگڑے اور گولیاں چلنے کا تصور ذہنوں میں آتا ہے۔ کیا آپ کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا؟شاہد محمود ندیم: ہمارے زمانے میں لیفٹ اور رائٹ کی بحث بہت گرم ہوتی تھی بلکہ لیفٹ کے درمیان میں پرو بیجنگ اور پرو ماسکو گروپس کے درمیان بھی بہت مباحثہ ہوتا تھا۔ لیکن بندوقوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فائرنگ ہوجانا بہت انہونا واقعہ ہوتا تھا۔ سیاسی مخالفت جلسہ جلوس کی صورت میں ہوتی تھی۔ کہیں کہیں لیفٹ رائٹ کی دھینگامشتی ہوجاتی تھی۔ لیکن تشدد بہت محدود تھا۔ جتنا تھا وہ بس الفاظ ہی میں تھا۔؟

 

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر