تمام سرجن اور ڈاکٹرز18 گھنٹے تک مسلسل کام کرتے رہے‘راولپنڈی میں ایک ہسپتال کے منتظم منور حسین بتاتے ہیں کہ جب لواحقین نے حتمی فیصلہ کیا کہ جسمانی اعضا عطیہ کرنے ہیں تو اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلا کام عزیر کو دوسرے ہسپتال سے محفوظ انداز میں اپنے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔منور حسین کہتے ہیں کہ گردے کے ٹرانسپلانٹ کے ماہرین ہمارے ہسپتال میں موجود تھے اور یہ ٹرانسلانٹ ہمارے پاس ہی ہونا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود اور ڈاکٹر نوید سرور نے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ آنکھوں کے لیےآنکھوں کے ایک ہسپتال سے ماہرین کو بلایا گیا جبکہ جگر اور لب لبے کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو بلایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیصل ڈار جگر ٹرانسپلانٹ کے ماہر سرجن ہیں۔
عزیر بن یاسین کے جگر کے عطیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور لب لبا کا ٹرانسپلانٹ کرنے کے آپریشن کی نگرانی انھوں نے کی تھی۔ڈاکٹر فیصل ڈار بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دوپہر کے وقت راولپنڈی میں واقع ایک ہسپتال کی جانب سے اطلاع ملی کہ عطیہ کیا گیا جگر اور لبلبا حاصل کر لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس کے لیے مستحق مریضوں کوتلاش کیا گیا۔ جس میں پہلی ترجیح جوان العمر تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری ٹیم نے ضروری ساز و سامان کے ہمراہ جس میں جگر اور ل لبا کو محفوظ بھی رکھنا تھا اسلام آباد کا سفر شروع کر دیا تھا۔’تقریباً چار گھنٹے میں ہم اسلام آباد پہنچے جہاں پر رات کے تقریباً نو بجے جگر حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں عزیر کے دونوں گردے، آنکھیں حاصل کرنے کا کام شروع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نو بجے آپریشن شروع کیا اور یہ کوئی دو، اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ اس کے بعد جگر اور لب لبا لے کر واپس لاہور کا سفر شروع کیا۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ لاہور پہنچ کر میں اور میری ٹیم نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا تھا۔
ہسپتال میں عملہ مریضوں کو آپریشن کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم نے بھی پہنچتے ہی تمام تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس کے لیے تین آپریشن تھیڑ تیار کیے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان تین آپریشن تھیڑز میں تین ماہر کسنلٹنٹ سرجن اور ان کے زیر تربیت ڈاکٹرز اور عملہ مصروف عمل تھاخوشی ناقابل بیان تھی‘ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور لبلبے کا ٹرانسپلانٹ تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا آپریشن ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میرے دیگر دو ساتھی کسنلٹنٹ جگر کا ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا جگر حاصل کیا جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے دو مریضوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ اسی طرح شوگر کی ایسی سٹیج جہاں پر وہ بالکل ہی نا قابل علاج ہو جائے اس کا واحد حل لب لبے کی تبدیلی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر میں نے ایسے آپریشن پہلے کیے تھے اس لیے ہمارے پاس یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے ضروری تجربہ موجود تھا۔’مگر پاکستان میں اس کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ یہاں بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ اب یہ موقع ملا تو اس میں سب نے کوشش کی کہ جتنے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے فائدہ پہنچنا چاہیے۔‘ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے لب لبا اور میرے دو ساتھیوں نے جگر کا ٹرانسپلائنٹ مکمل کیا جو مشن ہم نے اتوار کی دوپہر شروع کیا تھا، وہ مسلسل کام کرتے ہوئے پیر کی صبح کوئی چھ سات بجے مکمل ہوا۔ تینوں مریضوں کی حالت تسلی بخش تھی، جس میں ایک سات سالہ بچہ بھی شام لزینب امتیاز کہتی ہیں کہ ’میں ڈائیلیسِز پر تھی۔ ٹرانسپلانٹ سے پہلے بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ کب ہسپتال جانا ہے اور کب ڈائیلیسز کروانا ہے
مس رفعت ایک رضاکارانہ اعضاء عطیہ دہندہ تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی۔ ان کے بھائی بریگیڈیئر زاہد بیگ مرزا، جو نیفرولوجسٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ ہیں، نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر ان کی خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور سی ایم ایچ/ایم ایچ راولپنڈی اور اے ایف آئی یو کی ٹیموں سے اعضاء نکالنے کی رضامندی کے لیے رابطہ کیا۔ مس رفعت کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تاکہ ان کا دل موت کے بعد بھی زندہ رہے۔اے ایف آئی یو، ایم ایچ، سی ایم ایچ، شفا، بحریہ اور سفاری اسپتالوں کی ٹیموں نے مل کر ایک ایسے مریض کا انتخاب کرنے کے لیے کام کیا جسے 18 گھنٹوں کے اندر گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہو، جو اعضاء نکالنے کی ڈیڈ لائن تھی۔ ڈاکٹر فیصل دار کی ٹیم نے جگر نکالنے کے عمل میں حصہ لیا۔ مجموعی طور پر، تین مریضوں کی جان بچائی جا سکتی تھی: ایک جگر اور دو گردے جو 18 گھنٹوں کے اندر میچ کیے گئے اور ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔اے ایف آئی پی امیونولوجی ٹیم نے رات بھر کام کرتے ہوئے 12 گھنٹوں کے اندر مطابقت کے ٹیسٹ مکمل کیے۔ الحمدللہ، دو گردے اور ایک جگر تین مریضوں کو پیوند کیا گیا اور وہ اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔
یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن ایک انوکھا اور قابلِ ذکر کارنامہ تھا، جو حقیقی صدقہ جاریہ ہے۔ آئیے اس مثبت خبر کو عام کریں تاکہ اعضاء کے عطیات اور پیوند کاری کے اس عظیم مقصد کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے قابلِ تقلید عمل کرنے کی حکمت اور ہمت عطا فرمائے۔مس رفعت کی بیٹیوں (جو سب ڈاکٹر ہیں) نے اپنی والدہ کو آخری الوداع کہا، جب ان کا دل وینٹی لیٹر پر دھڑک رہا تھا لیکن وہ دماغی طور پر مردہ تھیں۔ اعضاء کے عطیہ کے بعد انہوں نے اپنی پیاری اور عظیم ماں کی میت وصول کی۔ کیا بہادر خاندان ہے، کیا عظیم ماں ہے! ان سب کو سلام!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں