اتوار، 9 فروری، 2025

صدر قذافی کی باڈی گارڈ خواتین کے فوجی دستوں کا احوال

    لیبیا کے صدر معمر قذافی صحرا نشین خانہ بدوش قبیلے میں  ایک بدو چرواہے کے بیٹے  تھے1942ء میں ان کی پیدائش ایک خیمے میں ہوئی-یہی بچہ جب بڑا ہوا تو اس نے ایک بغاوت کے  زریعہ  لیبیا کی صدارت کا عہدہ حاصل کیا اور اپنی حفاظت کے لئے لیبین لڑکیوں کا خصوصی دستہ تیار کیا - یہ لڑکیا ں  جان و دل سے معمر قذافی کے ساتھ دیکھی جاتی تھیں- اس دستے کی خصوصیت  یہ تھی کہ وہ مردوں کے لباس میں  ہتھیار بند رہتی تھیں -ان  پانچ سو خوبصورت نوجوان ترک خواتین کا انتخاب   صدر قذافی خود کرتے تھے، ایک جیسا   لباس پہنے، کمانوں اور تیروں سے لیس، دائیں ہاتھ پر کھڑی  ہوتی  تھیں اور انھیں ترک محافظ کہا جاتا تھا۔ ان کے بائیں طرف پانچ سو حبشی خواتین بھی ایک سا لباس پہنے، آتشیں اسلحہ سے لیس تھیں۔‘معمر قذافی کے ساتھ ہمیشہ ہی 30 خواتین کا ایک حفاظتی دستہ موجود رہتا تھا۔


 سن انیس سو اٹھانوے میں ان پر ہونے والے ایک حملے کے دوران ایک خاتون باڈی گارڈ ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئی تھیں۔معمر قذافی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نیل پالش، آنکھوں پر مسکارا لگانا، میک اپ اور بالوں کا بہترین اسٹائل بنانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -صدر قذافی نے اس فیمیل پلاٹون کے جو قاعدے اور ضوابط مقرر کئے تھے وہ اس طرح تھے ۔ گوریلا یونیفارم کے ساتھ ساتھ لپ اسٹک، اونچی ہیل والی جوتی اور نیل پالش بھی ان کے لیے لازمی تھی۔ حفاطتی دستے میں شمولیت سے پہلے خواتین کو یہ حلف بھی اٹھانا پڑتا تھا کہ وہ مرتے دم تک قذافی کے ساتھ رہیں گی۔


العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی معمر قذافی بیرونی دوروں پر ان خواتین کو ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔  اپنے دورہ اٹلی کے دوران بدوؤں کے خیمے کے ساتھ ساتھ وہ درجنوں خواتین باڈی گارڈز کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس دورے کے دوران قذافی کی طرف سے سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کو کھانے کی ایک دعوت پر بھی مدعو کیا گیا تھا، جس میں قذافی نے انہیں اسلام قبول کرنے کا کہا تھا۔معمر قذافی کا بذات خود کہنا تھا کہ ان کی حفاظت پر معمور خواتین کو سخت فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی-  تاکہ وہ آسانی سے دشمن کا شکار نہ بنیں۔ا ن کو کشتی  لڑنے سمیت مختلف علوم کی تربیت دی گئی -


سن  2009 میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران قذافی کا اصرار تھا کہ ان کو گراؤنڈ فلور پر کمرہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 35 قدموں سے زیادہ  چڑھائی طے نہیں کر سکتے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قذافی اپنے اسٹاف میں سب سے زیادہ انحصار یوکرائن کی چار نرسوں پر کرتےتھے۔۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق معمر قذافی کے حفاظتی دستے میں شمولیت کے لیے خواتین کا کنوارا ہونا بھی ضروری تھا۔ -العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہنے والی ان سینکڑوں خواتین محافظوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟۔پھر بالآخر جس موت سے وہ بھاگ رہے تھے اور محافظ لڑکیوں کے حصار میں رہتے تھے-اپنی زندگی  کی آخری مزاحمت کی گھڑیوں میں وہ     فرار ہوتے ہوئے  دیکھے گئے ان کی  گاڑیوں کے قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کی۔نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔


‘سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ اور ان کی محافظین لڑکیوں کا نہیں معلوم کیا ہوا-باقی رہے نام اللہ کا -اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو کسی مرد یا عورت کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایسے بندے کی حفاظت اللہ کے فرشتے کرتے ہیں 


1 تبصرہ:

  1. اگرچہ ان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں مگر اصلاً وہی لیبیا کے سب سے بڑے رہنما تھے جن کو حکومت میں سب سے زیادہ عمل دخل حاصل تھا۔ وہ ریاستہائے متحدہ افریقہ بنانے کے بڑے حامی تھے۔ انھیں افریقی اتحاد، جس میں 53 افریقی ممالک شامل ہیں، کا صدر نشین (چئیرمین) چنا گیا ۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر