اتوار، 9 فروری، 2025

ٹرانسپلانٹ ' امتحاں کیسے کیسے!پارٹ 1

 

  
زرا وہ منظر آنکھو ں میں لائیے 
جب ایک بوڑھی ماں سے پوچھا جائے کہ  وہ اپنے  جوان نیم مردہ  بیٹے کے اعضاء عطیہ کردیں  تاکہ کسی اور کو زندگی مل جائے -جب ایک جوان سہاگن سے کہا جائے کہ اپنے  شوہر کے اعضاء عطیہ کر دے  تا کہ کسی سسکتے ہوئے کو زندگی مل جائے لیکن ایسا ہو چکا تھا -اس جوان سہاگن کی زندگی میں یہ امتحان آ چکا تھا اس بوڑھی ماں کو اپنے جوان بیٹے کا صدمہء عظیم دیکھنا لکھا تھا -عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔عزیر بن یاسین کون تھے؟عزیر بن یاسین کے تایا زاد بھائی فیصل رفیق بتاتے ہیں کہ عزیر راولپنڈی کے علاقے صدر میں بینک روڈ پر اپنے والد کی وفات کے بعد دکان چلا رہے تھے۔ ان کا آبائی تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ سے تھا۔عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ ’اکثر میری اور چھوٹی بہن کی ان سے لڑائی ہوتی تھی مگر یہ لڑائی زیادہ وقت نہیں چلتی تھی کیونکہ ہمیشہ عزیر ہی آگے بڑھ کر ہم سے معذرت کر کے بات ختم کر دیتے تھے۔


صبح اگر ناشتے کے وقت لڑائی ہوتی تو میں اس امید کے ساتھ کالج چلی جاتی تھی کہ اب معذرت کا پیغام آ جائے گا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔‘عزیر کی بیوہ فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ عزیر چپکے سے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ اکثر شام کو اپنی پسندیدہ فروٹ چاٹ لاتے تھے۔کچھ دن پہلے ہی ان کے پاس فروٹ چاٹ کے دو لفافے تھے، میں نے کہا کہ یہ آپ کے پاس کیوں ہیں تو وہ بتانے لگے کہ وہ کسی غریب خاتون نے فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگایا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ چلو ان سے فروٹ چاٹ خرید لیتا ہوں۔ ان کی بھی مدد ہو جائے گی۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’اکثر گلی سڑی سبزیاں لے آتے تھے۔ جس پر میں کہتی کہ یہ کیا ہے تو بس اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے یہ سمجھ میں آ رہا ہوتا تھا کہ وہ کسی غریب ریڑھی والے کا مال ختم کرنے اور اس کو فائدہ دینے کے لیے یہ سبزی خرید لیتے تھے کہ چلو استعمال کی یا نہ کی اس کا فائدہ تو ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ عزیر کسی کو کسی طرح فائدہ پہنچاتے اور مدد کرتے تھے، جس کا اندازہ فائدہ پہنچنے والے کو بھی کم ہی ہوتا تھا-‘

 فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا‘فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ ’عزیر بالکل صحت مند تھے، بس کبھی کبھار سر میں درد کی شکایت کرتے تھے۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’جس صبح وہ بیمار ہوئے اس رات یہ آدھے سر کے درد کی شکایت کر رہے تھے اور کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر سو گئے تھے۔ صبح جب میں ناشتہ بنا رہی تھی تو اس وقت عجیب سی حالت میں کہا کہ پانی دو میں نے پانی دیا اور پھر فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا کہ ان کی طبعیت خراب ہے۔ان کے مطابق ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شاہد وہ بے ہوش ہو گئے-فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر پہلے ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے مگر وہ سی ٹی سکین وغیرہ کر رہے تھے جس پر میں نے ان کی بہن ڈاکٹر سیما کو اس کی اطلاع کر دی۔‘ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ وہ برطانیہ میں ایمرجنسی ڈاکٹر کی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ’پہلے جب مجھے اطلاع ملی کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور سی ٹی سکین وغیرہ ہو رہا ہے۔ اکثر اوقات سی ٹی سکین صاف ہوتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ سی ٹی سکین صاف ہو گا مگر جب کچھ دیر بعد میں نے سی ٹی سکین دیکھا تو دماغ میں کچھ موجود تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمیں جو رپورٹس مل رہی تھیں ان سے پتا چل رہا تھا کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے۔


 میں یہ دیکھ کر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس موقع پر میرے میاں مجھے سمجھا رہے تھے کہ مجھے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے۔‘ڈاکٹر سیما کہتی ہیں کہ ہم نے برطانیہ میں دیکھا تھا کہ ایسے کیسز جن میں دماغ مردہ ہو جاتا ہے وہاں پر اکثر اوقات خاندان اپنے اعضا عطیہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری بہن تو بھائی کے اعضا عطیہ کرنے کو تیار تھے مگر یہ فیصلہ بھابھی اور ماں کو کرنا تھا۔ ماں نے بھی کہہ دیا کہ یہ بھابھی کا حق ہے وہ خود یہ فیصلہ کریں گی۔’بھابھی شروع میں تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘’سات نئی زندگیوں کے لیے فیصلہ کیا‘فائزہ کہتی ہیں کہ ’میں تو عزیر کی موت کو تسلیم نہیں کر رہی تھی مگر عزیر کی ڈاکٹر بہنوں نے بھی دبے دبے الفاظ میں کہنا شروع کیا کہ اگر ہم اعضا کو عطیہ کر دیں گے تو کئی لوگوں کی نئی زندگیاں ملنا شروع ہو جائیں گئیں۔‘فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’میرا چھوٹا بھائی بھی ڈاکٹر ہے، اس نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ اعضا عطیہ کر دینے چاہییں۔ اس کے لیے میں نے مذہبی رہنماؤں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘


ان کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ عرصہ قبل ہمارے قریب ہی کرایہ پر رہائش پذیر ایک خاندان یاد آیا، جس کی ایک کم عمر بچی کا ڈائیلسز ہوتا تھا۔ اس بچی کی والدہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ وہ جس کرب اور تکلیف سے گزرتی تھیں، مجھے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ جب میں ہسپتال گئی تو وہاں پر راجہ علی ریاض کی والدہ بھی ملی تھیں۔فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’راجہ علی ریاض کی والدہ میری ساس کو ملیں اور ان سے مل کر رونے لگیں کہ میرا جوان بیٹا کہہ رہا ہے کہ مجھے زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کا گروپ او پازیٹو ہے اور کوئی او پازیٹو خون سے میچ کرنے والا عطیہ نہیں مل رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’میں نے یہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ عزیر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس سے پہلے کہ ان کا وینٹی لیٹر بھی اتر جائے ان کے اعضا سے لوگوں کو نئی زندگی دیتے ہیں اس سے بڑا تحفہ عزیر کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خود عزیر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا تو وہ بھی یہ ہی فیصلہ کرتے۔ بس اس فیصلے کے بعد کچھ دیر تک سوچا کہ یہ سبز آنکھیں عطیہ نہیں کرتی ہوں۔ یہ ان پر بہت پیاری لگتی تھیں۔ میری اور بیٹی کی پسندیدہ تھیں۔ ’مگر پھر یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ یہ سبز آنکھیں دو لوگوں کی بینائی لوٹا دیں گی تو اس سے اچھا اس کا کوئی اور استعمال نہیں ہو سکتا

1 تبصرہ:

  1. اللہ کریم و رحیم عزیر مرحوم اور رفعت مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمیناور دونوں کے متعلقین کو صبر جمیل عطا ہو آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر