۔خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ افراد کے اعدادوشمار دیکھ کر پریشانی سی محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے مٹھی بھر ایسے ہیں جنہیں قومی شناختی کارڈ کی صورت میں باقاعدہ قانونی شناخت اور تحفظ اور حاصل ہے۔ سال 2009 میں ایک تاریخی کام یہ ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی شناختی کارڈ کے فارم میں “تیسری صنف” کا خانہ شامل کرنے کا حکم دیا۔ 2012 میں خواجہ سرا افراد تیسری صنف کے طور پر اپنی رجسٹریشن کرانے اور قومی شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی ٹریبونل نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سرا برادری کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو آئین کی رو سے ملک کے دیگر تمام شہریوں کو حاصل ہیں جن میں وراثت کا حق، کام کرنے کے مواقع، مفت تعلیم، اور طبی نگہداشت وغیرہ جیسی سہولیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کی روشنی میں نادرا نے 2012 میں خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا کام شروع کیا لیکن عملی طور پر آج بھی تقریباً 90 فیصد خواجہ سرا اس حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ہمیشہ سے ایک مخمصے کا شکار رہی ہے جنہیں معاشرے میں کسی بھی دوسرے فرد کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور عملی طور پر وہ معاشرے سے خارج ہی رہ جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بجائے اس کے کہ حالات میں کوئی بہتری آتی، الٹا ان کی صورتحال بگڑتی چلی گئی ہے۔ مانا کہ حالیہ سالوں کے دوران انہیں برائے نام ملازمت کے مواقع دئیے گئے ہیں، انہیں ملک کے شہری کے طور پر اپنا اندراج کرانے اور قومی شناختی کارڈ رکھنے کا حق بھی مل گیا ہے، اور ووٹر کے طور پر اندراج سے انہیں اظہار رائے کا موقع بھی نصیب ہوا ہے لیکن اول تو ان حقوق سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑی محدود سی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ عملی طور پر ان کی مشکلات میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہے اور ان کے ساتھ برتے جانے والے معاشرتی رویوں میں برائے نام ہی کوئی بہتری آئی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ آج بھی ہر طرف سے ٹھوکریں ہی ان کی مقدر بنتی ہیں۔قانون سازی جیسے اقدامات اپنی جگہ، خواجہ سرا برادری کے معاملے میں عام شہریوں کے روئیے خاص طور پر ان کی حالت زار کو مزید بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ یہ ان کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ جن کا مقدر صرف سڑکوں پر بھیک مانگنا تھا آج وہ سکولوں اور کالجوں میں حصول تعلیم کے لئے بھی داخل ہو رہے ہیں، جیسے تیسے کر کے قومی شناختی کارڈ بھی بنوا رہے ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سوچ اور رویوں کا عالم یہ ہے کہ والدین جیسے انتہائی قریبی رشتے بھی ان کی مخالفت اور ان کی حق تلفی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لہٰذا، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کو ایک برابر انسان اور فرد کے طور پر تسلیم کرے۔ حکومت جہاں اداروں کی سطح پر مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے وہیں ہمیں بھی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تب جا کر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، سب کا سانجھا معاشرہ بنے اور جس میں سب کے ساتھ رواداری اور برابری والا سلوک کیا جائے۔
اس اقدام سے خواجہ سراء ملک و قوم کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔ اسلام آباد (آن لائن)اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا مظلوم ومقہورطبقہ ہے جس کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانونی اور عملی اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔ شریعت اسلامی میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ متعدد مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ رہا ہے۔ پہلی بار کونسل میں یہ معاملہ تب زیربحث آیا جب وزارت مذہبی امور نے مخنث بچوں کو وراثت میں حصہ دلانے کیلئے ”مسلم عائلی قوانین آرڈیننس (ترمیمی) بل کونسل کو ریفر کیا۔ کونسل نے اپنے اجلاس میں اس بل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے شرعی احکام کی روشنی میں دوبارہ ڈرافٹ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ میں مخنث افراد کو وراثت میں حقوق دلانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا۔ آخری بار سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ میں پیش کردہ مسودہ بل "مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں زیرغور آیا۔ کونسل کے سامنے اس موضوع سے ملتے جلتے دیگر بلز بھی پیش کیے گئے، جن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مخنث سے متعلق وضع کردہ پالیسی اور انسانی حقوق کمیشن کا تیار کردہ مسودہ بل بھی شامل ہیں۔ کونسل نے خواجہ سرا کمیونٹی، نادرا، سماجی تنظیموں اور ماہرین قانون وشریعت سے تفصیلی مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ بل متعدد دفعات کے غیر شرعی ہونے کیساتھ ساتھ خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کیلئے ناکافی ہیں۔
اس سلسلے میں کونسل کی طرف سے بلوں کے مسودات پر شق وار تفصیلی ترمیمی سفارشات دی گئیں۔تاہم بعدازاں! اس موضوع پر جب باقاعدہ قانون سازی ہوئی، اور مئ2018 ء میں خواجہ سراؤں (کے حقوق کے تحفظ کا) ایکٹ، 2018منظور ہو ملکی قانون بن گیا، تو کونسل نے اپنی سفارشات میں جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔کونسل نے وزارت انسانی حقوق کے استفسار پر اس قانون کا جائزہ لیا اور قانون میں موجود خامیوں کے حوالے سے اپنی سفارشات وزارت قانون، وزارت انسانی حقوق اور وفاقی شرعی عدالت کو ارسال کردی ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آج یہ قانون معاشرے میں زیر بحث ہے۔ضروری ہے قانون میں ایسی جامع ترامیم لائی جائیں جو شرعی احکام، آئین پاکستان کی عکاس، ٹرانس جینڈرز کے حقیقی مسائل کے ادراک پر مشتمل ہوں اور قانون میں اس طبقے کے مسائل ومشکلات کے حل کیلئے راستے موجود ہوں۔لاہور کے سرٹ سٹوڈیو میں اولو موپولومیڈیا کے زیر اہتمام ’تیسری دھن‘ کے نام سے تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس ڈرامے کے تمام کردار بھی خواجہ سرا ہی ہیں۔ان خواجہ سراؤں نے اپنی آپ بیتیوں اور دیگر خواجہ سراؤں سے متعلق اس معاشرے میں روا سلوک کو اپنی اداکاری سے پیش کیا۔اولوموپولو کی بانی کنول کھوسٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'تیسری دھن تھیٹر ڈرامہ ہے جسے بہت سی تحقیق کے بعد بنایا گیا۔ ہم نے اسے 2015 میں لاہور میں پہلی بار پیش کیا تھا اور اس وقت ہم نے اسے ڈاکیومینٹری تھیٹر کا نام دیا تھا۔ اس بار ہم اسے ڈیوائزڈ تھیٹر پروڈکشن کے طور پر کررہے ہیںخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی بڑی تعداد جسم فروشی پر مجبور ہونے لگی وکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، سیکرٹری بلدیات پنجاب-پنجاب حکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد منصوبوں کااعلان کررکھا ہے پنجاب میں خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے قبیح دھندے میں شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہےخواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہورہی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق اگرحکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبودکے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے توخواجہ سراؤں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا،خواجہ سراؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ان کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے جبکہ سڑکوں سے پکڑے جانے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا ہے۔
خواجہ سرا برادری، پاکستان میں خاصی نمایاں تعداد میں موجود ہے۔ ان میں معاشرے کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے اور کم سن بچوں سے لے کر ستر سالہ بزرگوں تک، ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔ نسلی اور مذہبی وابستگی کے اعتبار سے دیکھیں تو تقریباً ہر نسل، ذات، مذہب اور عقیدے کے لوگوں میں خواجہ سرا موجود ہیں۔ 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی آبادی 10,418 ہے۔ لیکن بندیا رانا جیسے فعال اور مایہ ناز خواجہ سرا رہنما اور کارکن ان اعدادوشمار پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ خواجہ سرا کارکنوں کے مطابق ان کی آبادی اور بھی کچھ نہیں تو ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان ہے۔حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حتمی ووٹر فہرستیں جاری کی ہیں جن کے مطابق ملک میں کل اندراج یافتہ ووٹرز کی تعداد 115,748,753 ہے جن میں 64,078,616 مرد، 51,667,599 خواتین اور 2,538 خواجہ سرا شامل ہیں۔2,538 رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز میں سے 1,886 پنجاب میں ہیں، 431 سندھ میں، 133 خیبرپختونخوا میں، 81 بلوچستان میں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد صرف 7 ہے
یہ ہمارے سماج کا وہ مظلوم طبقہ ہے جس پر ہر صاحب اختیار ظلم ڈھاتا ہے
جواب دیںحذف کریں