جمعرات، 13 فروری، 2025

کینسر ڈیویلپر' رنگ برنگے مزیدار گٹکے کی پڑیاں

 

کینسر ڈیویلپر' رنگ برنگے مزیدار گٹکے کی پڑیاں ‘  صرف ایک روپیہ میں- چھالیہ و گٹکا کا رس ہی کارسینو جینک ہے کیونکہ یہ مصنوعی و ٹیکسٹائل رنگوں سے بنتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے سبھی ''میکوزل فائبروسس‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں منہ کی جھلی سوکھ جاتی ہے اور زبان میں لکنت محسوس ہوتی ہے۔ منہ کھلنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اسے پری کنڈیشنڈ کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ گٹکا و چھالیہ کھانے والے افراد کے منہ پر ابتداً چھوٹا سا چھالا بنتا ہے۔ چھالا بننے کے بعد بتدریج منہ میں کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر رسولی بن جاتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جس مریض کو منہ کا کینسر ہو جائے یا اورل سرجری کے بعد اس کے دوست احباب منہ میں گٹکا چبائے اس کی خیریت دریافت کرنے آجاتے ہیں۔ مگر گٹکے کا استعمال نہیں چھوڑتے۔۔ ایک روپے میں ملنے والی رنگین میٹھی سپاری کے رنگ برنگے ریپرز، مین پوری کی واٹرپروف تھیلیاں اور گٹکے کے کاغذ اور شاپرز بڑی تعداد میں اور  ہر جگہ اڑتے مل جاتے ہیں ۔گٹکے کی تیاری میں  گائے کا خون بھی شامل کیا جاتا  جس میں کیڑے بھی پڑ جاتے ہیں اور پھر یہی کیڑے انسان کو کھا جاتے ہیں، ذمہ دار گٹکے بنانے والے ہیں جن کی فیکٹریوں کے مالکان کروڑپتی بن چکے ہیں، کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟


 اپنی حالت اور گھروالوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے لیکن میں بے بس ہوں کچھ نہیں کرسکتا ۔میرے دوست میری حالت دیکھنے کے باوجود بھی گٹکے نہیں چھوڑتے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ عبرت کا نشان بننے سے پہلے گٹکا کھانا چھوڑدیں ۔حکومت گٹکے کے خلاف صحیح آپریشن کررہی ہے۔ نسرین (وحید خان کی ساس)میرا بیٹا بھی گٹکا کھاتا تھا۔داماد کی حالت دیکھ کر اس نے گٹکا کھانا چھوڑدیاہے۔ ہم حیدرآباد سے آئے ہیں ۔داماد وحید کی حالت دیکھ کر بہت رونا آتاہے۔وحید 10سال سے گٹکا کھارہا تھا۔ کئی مرتبہ سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا۔میری بیٹی اپنے چھوٹے بچے اور شوہر کو دیکھ کر اداس رہتی ہے کسی سے کچھ نہیں کہتی ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وحید صحیح ہوجائے گا۔3مہینے سے کھانا بند ہے۔ نلکی کے ذریعے صرف پانی والی چیزیں دی جارہی ہیں۔ایک سال سے مرض میں شدت آگئی ہے۔ 10روز پہلے آپریشن ہواہے۔ مریض کے ساتھ ایک خاتون نے انکشاف کیا کہ میں نے گٹکا بنتے دیکھا ہے۔ اس میں تیزاب ،گائے کاخون ،چونا اور ایک سبز رنگ کا کیمیکل جس کو ناس بھی کہتے ہیں ڈالا جاتاہے جو خراب چھالیہ کو گلانے کیلئے ڈالا جاتا ہے ۔پھر مشینوں سے مکس کیاجاتاہے۔


ایک مریض نے بتایا کہ گٹکے میں افیون بھی ڈالی جاتی ہے۔ایک مریض کے رشتے دار محمد اصغر نے جس نے کچھ روز پہلے ہی مین پور ی کھانا چھوڑی ہے بتایا کہ گٹکے میں رکھے رکھے کیڑے پڑ جاتے ہیں جس میں کافور کی گولیاں ڈالی جاتی ہیں تاکہ بدبو دور کی جاسکے ۔ ضعیف خاتون نے اس موقع پر (روتے ہوئے) بتایا کہ میرے منہ میں کینسر ہوگیا ہے۔میں نسوار کھاتی تھی ،اب بہت تکلیف ہے۔حیدرآباد میں رہتی ہوں،اپنی بہن اور بیٹے کے ساتھ سول اسپتال آئی ہوں مگر میری تکلیف دیکھ کر بیٹا میرے ساتھ نہیں بیٹھتا،میں اندر وارڈ میں ہوتی ہوں جبکہ بہن اور بیٹا باہر زمین پر سوتے ہیں۔انہیں تکلیف میں دیکھ کر دل دکھتا ہے۔میرے بیٹے نے مجھے دیکھ کر مین پوری کھانا چھوڑ دی ہے۔اب پتہ نہیں میرا کیا ہوگا۔


گٹکا ،ایسا زہر ہے جسے کھانے والا مزے لیتا ہے اور پھ عمر بھر پچھتاتے ہوئے قبر تک جاپہنچتا ہے۔ سول اسپتال میں نصف منہ کٹے ،بدترین صورتحال سے دوچار مریض دیکھے تو گھر پہنچ کر کھانا تک نہیں کھایاگیا۔کافور،گائے کے خون اور تیزاب سے بنائے جانے والے گٹکے میں سڑنے کے بعد کیڑے پڑ جاتے ہیں  ں۔ڈاکٹر عاطف کہتے ہیں کہ گٹکا کھانے والااگر شروع میں ہی اسے چھوڑ دے تو بچ سکتا ہے ورنہ بعض اوقات ہمارے پاس کینسر کے ایسے مریض آتے ہیں جن کا علاج ہمارے لئے ممکن نہیں۔شہر کراچی میں گٹکے کیخلاف ’’بے سود‘‘ مہم جاری ہے مگر اس گٹکے کی فیکٹریوں کے کتنے ہی مالک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟ گٹکے پر خصوصی رپورٹ بنانے سول اسپتال پہنچا تو ای این ٹی وارڈ کے باہر نوین کمار سے ملاقات ہوئی ۔ جس کا منہ سوجا ہوا تھا اور کینسر پھیل چکا تھا ۔نوین مایوس تھا ۔اس سوال پر کہ گٹکے کھانے کی وجہ سے آپ کو کینسرہوگیا، کیوں کھاتے تھے اور کبھی بنتے دیکھا ؟نوین کمار نے بتایا کہ گٹکے میں عجیب سا نشہ ہوتا ہے ۔15سال سے کھا رہا تھا۔ اس سے پہلے پان کھاتا تھا ،معلوم نہیں اس میں کیا ڈالتے ہیں جو ذائقے میں پان سے زیادہ اچھا ہوتا ہے ۔اس کو کبھی بنتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اگر دیکھ لیتا تو شاید نہ کھاتا ۔ گھر والوں نے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتے تھے ۔


بڑے بھائی بہت غصہ کرتے تھے کہ ہم نے کبھی سپاری تک نہیں کھائی اور تم یہ کیا کھارہے ہو؟ اب گھر والے بہت پریشان ہیں۔ اس بیماری کا کوئی حل ہی نظر نہیں آرہا۔ اب تک 4 مرتبہ کیموتھراپی کراچکا ہوں جس سے سرکے بال جھڑ جاتے ہیں۔ (اس دوران نوین کمار نے سر بھی دکھایا سارے بال جھڑ چکے تھے)۔بھائی بھی میرے ساتھ اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر پریشان ہوگئے ہیں۔ بیوی بچے بھی افسردہ رہتے ہیں۔ اس حالت میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا بڑاپریشان ہوں ۔میرے ا س سوال پر کہ گٹکہ کھانے سے نشہ ملتا ہے کیا کھاتے وقت گندگی محسوس نہیں ہوتی؟ نوین کمار نے کہا کہ اگر گندگی محسوس ہوتی یا بدبوہوتی تو چھوڑ نہیں دیتے؟ اس کو کھانے میں ایک مزا اور نشہ ہوتا ہے جسے کھانے والا چھوڑتا نہیں البتہ اگر اس کو بنتے دیکھ لیتے تو شاید چھوڑ دیتے ۔15 سال سے کھارہا ہوں ۔4 ماہ پہلے منہ میں ایک چھوٹا سا چھالہ ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے کینسر بن گیا ۔نوین کمار کے بھائی کشور لال نے بتایا کہ میں نے اسے گٹکا کھانے سے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتا تھا ۔اب علاج کیلئے مختلف اسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن کہیں بھی تسلی بخش علاج نہیں ہورہا۔ بڑے پریشان ہیں اس وقت کیمو تھراپی سے علاج ہورہا ہے ۔نوین کمار اپنے کئے پر بہت پشیمان ہے۔ راتوں کو اٹھ کر روتا ہے اور اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔اللہ ہر شخص کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔خاندان والے اس کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ اس کے کھانے پینے کیلئے برتن الگ کردیئے ہیں تاکہ گھروالوں کو پریشانی نہ ہو

1 تبصرہ:

  1. عوام الناس جان لیں کہ گٹکا غیر قانونی طریقے سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے وہ ٹرکوں میں پڑا رہتا ہے۔ جب ملک میں پہنچتا ہے تو اسے پھپھوندی لگ چکی ہوتی ہے۔ پاکستان میں پھپھوندی زدہ گٹکا چھالیہ کھانے سے جگر اور پھیپھڑوں کے کینسر کا گراف بتدریج بڑھ رہا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر