بدھ، 12 فروری، 2025

ایک زریں عہد تمام ہوا 'پرنس کریم آغا خان

  اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق پرنس کریم کا شجرۂ نسب براہِ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہے۔ وہ 1936 میں یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت افریقی ملک کینیا کے شہر نیروبی میں گزارا تھا۔ان کے دادا آغا خان سوم کے انتقال کے بعد 1957 میں انہیں افریقی ملک تنزانیہ میں اسماعیلی فرقے کا پیشوا بنایا گیا تھا۔ پرنس کریم کے دادا نے ان کے والد کی جگہ انہیں پیشوائی کے لیے نامزد کیا تھا۔جس وقت پرنس کریم آغاخان اپنی کمیونٹی کے پیشوا بنے تو ان کی عمر 20 برس تھی اور اس وقت وہ ہارورڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے Le Rosey اسکول اور پھر 1959 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لی تھی۔ آغا خان سوم نے تیرہ سو برس کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے کو جانشین بنایا تھا۔پرنس کریم آغا خان 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے۔ انہوں نے 1957 میں 20 برس کی عمر میں امامت سنبھالی تھی۔


انہوں    نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہپرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں موروثی امام تھے:آغا خان اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق پرنس کریم کا شجرۂ نسب براہِ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہےجس وقت پرنس کریم آغاخان اپنی کمیونٹی کے پیشوا بنے تو ان کی عمر 20 برس تھی اور اس وقت وہ ہارورڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھےپرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھےکریم آغا خان نے وراثت میں ملنے والی دولت کا بڑا حصہ انسانی خدمت کے منصوبوں پر لگایاشاہ رحیم الحسینی اپنے والد کی وصیت کے مطابق اسماعیلی کمیونٹی کے50ویں روحانی پیشوا مقرر ہوگئے ہیں۔آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم یورپی ملک پرتگال میں 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔پرنس کریم الحسینی ’آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ کے بانی تھے۔اسماعیلی کمیونٹی کی ویب سائٹ کے مطابق انتقال کرنے والے پرنس کریم کی وصیت کے مطابق ان کے سب سے بڑے بیٹے شاہ رحیم الحسینی آغا خان پنچم اسماعیلیوں کے 50 ویں امام یا مذہبی پیشوا مقرر ہوگئے ہیں۔


پرنس رحیم کی عمر 53 سال ہے اور انہوں نے امریکہ کی براؤن یونیورسٹی سے تقابلی ادب کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ آغا خان ڈیولپمنٹ بورٹ سے منسلک کئی اداروں کے بورڈز میں بھی شامل رہے ہیں -اسماعیلی کمیونٹی کی ویب سائٹ کے مطابق دنیا میں اسماعیلیوں کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ کے درمیان ہے اور ان کی بیش تر آبادی وسطی و جنوبی ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں آباد ہے ۔پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے ان کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرنس کریم کی میراث ان کے دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور ناقابلِ یقین ترقیاتی کاموں کے ذریعے ہمیشہ موجود رہے گی۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی ایک بیان میں پرنس کریم کو امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت قرار دیا۔ پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم نے وراثت میں ملنے والی دولت کا بڑا حصہ انسانی خدمت کے منصوبوں پر لگایا۔ ان کے ترقیاتی کاموں اور دنیا میں رواداری کے فروغ کی کوششوں کی وجہ سے انہیں کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی دی گئی۔


ان کے انتقال پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی ہمدرد رہنما تھے۔انہوں نے پرنس کریم کو ایک بہترین دوست قرار دیا۔پرنس کریم چہارم کے پاس برطانیہ اور پرتگال کی شہریت بھی تھی۔’اے پی‘ کے مطابق پرنس کریم الحسینی کو اسماعیلی فرقے کا پیشوا بننے کے دو ہفتوں بعد ہی جولائی 1957 میں ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم نے انہیں ’ہز ہائینس‘ کا خطاب دیا تھا۔پرنس کریم اکتوبر 1957 میں تنزانیہ میں اسی دارالسلام میں آغا خان چہارم بنے تھے جہاں ان کے دادا آغا خان سوم کو پیرو کاروں نے ان کے وزن کے برابر ہیرے ہدیہ کیے تھے۔وہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران بیمار دادا کے پاس آئے تھے لیکن جب 18 ماہ بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس وقت وہ آغا خان چہارم بن چکے تھے۔انہوں نے 2012 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں اس وقت تعلیم حاصل کر رہا تھا اور جانتا تھا کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہوگا۔اسماعیلی برادری کی قیادت لزبن میں مقیم ہیں جہاں یہ کمیونٹی خاصی تعداد میں آباد ہے۔’اے ایف پی‘ کے مطابق پرنس کریم چہارم مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات، مذہبی بنیاد پرستی یا فرقہ واریت پر بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔


سال 2017 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام تنازعات اور سماجی انتشار کا نہیں امن کا مذہب ہے۔ان کا قائم کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بنیادی طور پر صحت، گھروں کی تعمیر، تعلیم اور دیہی علاقوں میں معاشی ترقی کے شعبوں میں کام کرتا ہے۔اس نیٹ ورک کے مطابق یہ لگ بھگ 30 ممالک میں خدمات انجام دے رہا ہے جب کہ اس کا سالانہ بجٹ لگ بھگ ایک ارب ڈالر ہے۔پرنس کریم کے دادا سر آغان خان سوم پاکستان کے قیام کی تحریک چلانے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے۔ پرنس کرم کی قائم کردہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک بھی کئی دہائیوں سے صحت، تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے تحت چار دہایوں سے قائم آغا خان یونیورسٹی اسپتال کو پاکستان میں سہولتوں کے اعتبار سے بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کھیلوں میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ اعلیٰ نسل کے گھوڑے رکھنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے 1964 کے ونٹر اولمپکس میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکنگ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے زریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصا ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر