بلو چستان کے حوالات میں کتاب کی فریاد۔کتاب اسٹال بند کرو- اور اس حکم کے تحت پولیس کے چوڑے سینے والے سپاہی آئے اور کتابوں اور ان کو فروخت کرنے والے معصوم طالبعلمو ں کو حوالات میں بند کر دیا تصاویر یہں موجود ہیں -بلوچستان کے شہر ڈیرہ مراد جمالی میں کتابوں کے اسٹال پولیس نے بند کروادیے۔یہی نہیں بلوچستان کے طول عرض میں معصوم طلباء کی کاوشوں سے کتاب میلہ کے تمام اسٹال جو غریب طلباء ریڑھیوں پر لگائے تھے انہیں اٹھا کر حوالات میں ڈال دیا یہ وہ طلبہ ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت علم کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سستے داموں کتابیں فروخت کر رہے ہیں تاکہ علم ہر کسی کے لیے آسانی سے میسر ہو۔ لیکن انہیں روک کر یہ کہا گیا کہ اوپر سے حکم ہے کہ بلوچستان میں کتاب کلچر کو فروغ نہ دیا جائے۔ریاستی اداروں کا یہ رویہ نوجوانوں کو ایک ایسے راستے پر دھکیلنے کے مترادف ہے جہاں وہ علم کے بجائے انتہا پسندی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں ضلعی انتظامیہ کا یہ عمل نہ صرف نوجوانوں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے ریاستی پالیسیوں کا یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو عوام سے چھینا جا رہا ہے۔طلبہ نے کتابیں ٹھیلے پر رکھ کر فروخت کرنا شروع کیں تاکہ علم کی روشنی عام ہو لیکن اس پر بھی انتظامیہ کو خوف لاحق ہو گیا ایک ایسا ملک جس کا آئین تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیتا ہے (آرٹیکل 25-A کے تحت) وہاں کتابوں کے فروغ کو روکنا کس آئینی جواز کے تحت ممکن ہے؟ یہ تو کھلی آمریت کی علامت ہے۔
پولیس دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام ہے جو معاشرے کے لیے حقیقی خطرہ ہیں لیکن ایک پُرامن اقدام جہاں نہ نعرے بازی ہے نہ سڑکیں بند کی جا رہی ہیں فوراً انتظامیہ کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے کیا یہ ریاست کی ترجیحات کی ناکامی کو ظاہر نہیں کرتا؟ پولیس اور انتظامیہ کی آج کی کارروائی بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ریاست اپنے ہی آئینی اصولوں سے منحرف ہو رہی ہے ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایک تعلیم یافتہ باشعور معاشرہ چاہتی ہے یا ایک ایسا سماج جہاں خوف و جبر اور نفرت پروان چڑھے کتاب کلچر کو ختم کرنے کی کوشش نوجوانوں میں مایوسی اور نفرت کو بڑھا دے گی نوجوانوں کو کتابوں سے دور رکھ کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھمانے کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں ریاست خود ان نفرتوں کو ہوا دے رہی ہے۔نوجوان پولیس کو آئینی طریقہ کار سمجھا رہے ہیں لیکن ضلعی پولیس سے آئینی بات کرنا بے سود ہے کیونکہ اکثر اہلکار سفارشی بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں ان کو آئینی بات سمجھانا ایسا ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا مگر افسوس ان افسران پر ہے جنہوں نے یہ حکم دیا کہ کتاب کو عوام کے ہاتھوں سے چھینا جائے یہ عمل نہ صرف آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ جمہوریت کا مذاق بھی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرے اگر آج بلوچستانکی سڑکوں پر کتابیں چھینی جا رہی ہیں تو کل یہی نوجوان اپنے حقوق چھیننے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے کتاب سے خوفزدہ ہونے کے بجائے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھمائی جائیں تاکہ وہ اس ملک کا روشن مستقبل بن سکیں تعلیم اور شعور ہی کسی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔بلوچستان میں اسٹوڈنٹس کو ریاست نے اتنا خوفزدہ کیا ہوا ہے وہ لائیبریری میں یا اپنے کلاس یا کوئی اور جگہ میں کتاب پڑھ نہیں سکتے کہ کوئی ریاستی اداروں کو معلوم ہو تو ان کو کتاب پڑھنے پر لاپتہ کیا جاتا ہے ، بلوچستان میں کتابوں کا اسٹال لگانے والوں کو پولیس نے حوالات میں بند کر دیا -حب پولیس کی کتب میلہ پر دھاوا, زبردستی بُک اسٹال ختم کروادیا۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی حب زون کی جانب سے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے لگائی دو روزہ کتب میلہ پر پولیس نے دھاوا بول کر وہاں موجود دوستوں کو ہراساں کرکے ان کی پروفائلنگ کی اور کتب میلہ کو زبردستی ختم کروایا دیا۔ ایک طرف معاشرے کے بچے کتب خریدنے دوردراز سے آئے ہوئے تھے اور کتابیں خریدرہے تھے جبکہ دوسری جانب پولیس کتابوں کو زبردستی غنڈہ گردی سے ہٹوانا انتہائی افسوسناک و شرمناک ہے۔
آج بُک اسٹال کا دوسرے دن پر پولیس کی بھاری نفری پریس کلب پر پہنچ کر کتب میلہ کو ختم کرنے پر مجبور کیا اور ان کو یہ کہہ کر زبردستی اسٹال ختم کراویا گیا کہ پریس کلب کے یہاں کتب میلہ لگانے کی اجازت نہیں۔ جب پولیس آفیسر کو پوچھا گیا کہ کوئی لٹر یا نوٹفیکشین دکھا دیں جہاں یہ لکھا ہو، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خود لیٹر ہیں۔یہی کتابیں پاکستان کے ہر شہر وا بک اسٹور پر آسانی دستیاب ہیں مگر بلوچستان میں کتب میلہ لگا کر علم پھیلانے پر قدغن ہے۔ یہ نہ صرف علم دشمنی ہے بلکہ یہ بلوچ علم دشمنی ہے، یہ ملک و سرکار نہیں چاہتی کہ بلوچ پڑھیں اور بلوچ معاشرے میں علم کی فضا قائم ہو۔پولیس کی جانب سے زبردستی کتب میلہ کو ختم کروانے اور ایسے غنڈہ گرد و علم دشمن رویوں کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہیں، اور زمہ داران کو واضح کہنا چاہتے ہیں ہم بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلانے کی جدو جد میں ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔مرکزی ترجمان بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ہاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک عدالت نے کتابوں کی سٹال لگانے کی بنیاد پر گرفتار کیے جانے والے چار طالب علموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
گرفتار کیے جانے والے چاروں طلبا کی رہائی کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ون کی عدالت میں ضمانت کی درخواستیں لگائی گئی تھیں جن کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے چالیس چالیس ہزار روپے کی ذاتی مچلکوں پر ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان طلباء کو گزشتہ روز گوادر شہر میں ڈھوریہ سکول کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے وہاں سٹال پر رکھی جانے والی کتابوں کو بھی تحویل میں لیا تھا۔جن چار طلباء کو گرفتار کیا گیا ان میں نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، شہریار اور چاکر بلوچ شامل ہیں۔ ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 149،147،188اور 153B کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔اس سلسلے میں پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا نے سٹال لگاکر انتشار پھیلانے والی کتابیں طلبا اور خواندہ لوگوں میں نافذ العمل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت فروخت کرنے کی کوشش کی۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ سٹودنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا دیگر طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی، طلباء تنظیموں اور حق دو تحریک گوادر نے طلباء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے طلباء کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمے کے اندراج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست شہریوں کے کتابیں پڑھنے اور علم بانٹنے کے عمل سے بھی خائف ہے۔‘بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا کہ ’جو کتابیں سٹالوں پر رکھی گئی تھیں وہ لاہور اور کراچی میں موجود پبلشرز کی جانب سے چھاپی گئیں اور یہ پاکستان کے دیگر شہروں میں فروخت ہورہی ہیں لیکن یہاں ان پر پابندی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف گوادر بلکہ اس سے قبل تربت، نصیر آباد اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی طلباء کو کتابوں کا سٹال نہیں لگانے دیا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے اس عمل نے یہ واضح کر دیا کہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے-
بلوچوں کو ان کے وہ حقوق دینے کی ضرورت ہے جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔
جواب دیںحذف کریںبلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں واقع کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ’گوادر کتب میلے سے غیر قانونی طور پر گرفتار بلوچ نوجوانوں سمیت کتابوں کو قید کرنا بلوچ دشمن اور علم دشمن عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گودار کی طرح بلوچستان کے دوسرے علاقے ڈیرہ مراد جمالی، اوستہ محمد، جھل مگسی، جعفر آباد، سبی، بارکھان،تونسہ، حب چوکی سمیت دیگر کچھ کتب میلوں پر پولیس اور سول وردی والے افراد نے دھاوا بول کر ہراساں کیا اور کچھ سٹالز کو بلاجواز بند کیاگیا۔
جواب دیںحذف کریں