ہفتہ، 15 فروری، 2025

موہٹہ پیلس 'کلفٹن کا جھومر

 

قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے ایک  بہت اونچے درجے کے صنعت کار نے کلکتہ سے آکر کراچی میں آباد ہو نے کا فیصلہ کیا  یہاں آ کر انہوں نے ا اور انھوں نے صنعتی شعبے میں  جہاز رانی اور جہاز سازی کی صنعت میں قدم رکھا۔ اِس کے علاوہ  وہ شوگر اور سٹیل ملز کے بھی مالک تھے ۔  اُنہوں نے کراچی میں کئی گھر  بنائے  لیکن پھر یوں ہوا کہ شیورتن  کی   بیوی کو ایک مہلک مرض لاحق ہو گیا اور ان کے معالجین نے کہا کہ ان کی صحت یابی  صحت بخش  سمندری ہوا اور فضاء سے ممکن ہے  چنانچہ شیورتن نے کلفٹن کے علاقہ میں ایک وسیع عریض  راجستھانی طرز کا پیلس بنانے کا فیصلہ کیا -یہی وجہ تھی کہ اُن کی نظرِ انتخاب  اس وقت کے مایہ ء ناز آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین پر پڑی جو اُس وقت کراچی میونسپلٹی میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن اُن کا زیادہ وقت راجھستان میں گزرا تھا۔آغا احمد حسین کو برِصغیر کے اولین مسلمان   آرکیٹکٹ میں شمار کیا جاتے تھے جو موہٹہ پیلس سے قبل کراچی کی دو اور مشہور عمارتوں ہندو جیم خانہ اور کراچی چیمبر آف کامرس کے نقشے تیار کر چکے تھے۔  1920ء کی دہائی میں تعمیر کروائے گئے اس پیلس کے لئےسینکڑوں گدھا گاڑیوں پر راجستھان کے مشہور گلابی پتھرجودھ پور سے کراچی لائے گئے تھے۔ جبکہ پیلے پتھر کراچی کے علاقے گزری سے لئے گئے تھے-


 موہٹہ پیلس کو پہلی بار دیکھیں تو  اس پر  راجستھان کے کسی محل  کا گمان ہوتا ہے۔پوری  بلڈنگ جے پور فنِ تعمیر کے زیراثر ڈیزائن کی گئی ہے جس میں مغل طرزِ تعمیر کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ عمارت کی خاص پہچان گنبد، محرابیں اور مینار ہیں جو موہٹہ پیلس کو اُس دور کے کراچی کی دیگر عمارتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ دو منزلہ محل میں سولہ کشادہ کمرے ہیں۔بیرونی دیواروں پر گُل بوٹوں اور پرندوں کی اشکال پتھر پر تراشی گئی ہیں۔ آغا احمد حسین مقامی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے موہٹہ پیلس میں مکلی کے مزارات پر کندہ نقش استعمال کیے۔ برماٹیک لکڑی کے دروازے کھڑکیوں پر سٹین گلاس کا کام کیا گیا ہے۔محل کے اندر پوجا کے لیے شیو کا مندر بھی بنایا گیا تھا جس کا اب کوئی نشان موجود نہیں۔ عمارت کے اطراف خوب صورت اور وسیع باغیچہ تھا جس میں لگے فوارے آج بھی کام کرتے ہیں۔  میں تعمیر ہونے والا موہٹہ پیلس ہمیشہ اُن کا پسندیدہ رہا۔سیٹھ شیورتن موہٹہ نے پھر اپنے مستقل قیام کا فیصلہ کیا اور وہ اپنی بیمار بیوی کو لے کر اس محل نما عمارت میں آگئے -یہاں آنے بعد ان کی بیوی کی صحت لوٹ آئ  اور سیٹھ شیورتن  موہٹہ نے  ان کی صحت یابی کا   جشنِ صحت یابی منایا ۔ یہ  جشن   صحت کراچی  کا ایک یادگار جشن تھا  جس  میں شہر کی سرکردہ شخصیات کو دعوت دی گئی۔ کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتہ بھی مہمانوں میں شامل تھے


موہٹہ پیلس کی بناوٹ -عمارت میں تین مرکزی دروازے مشرقی سمت میں ہیں ۔ مرکزی ہال دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جسے پوری عمارت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چھت پر ابھرا ہوا کاشی کاری کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے ۔ مرکزی ہال سے بائیں جانب ایک لمبا ہال موجود ہے جو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے فرش پر سرخ اور سبز ٹائل بچھائے گئے ہیں۔ بالائی منزل پر جانے کے لیے دو راستے ہیں جن کی 32, 32سیڑھیاں ہیں۔ سولہ سیڑھیوں کے بعد رنگین شیشے لگائے گئے ہیں اور چار ہوادار گنبد ہیں۔یہ  ایک وسیع و عریض قلعہ نما گلابی رنگ کی دو منزلہ عمارت ہے،جس کے چاروں کونوں پر گنبد اور چھت کے بیچ و بیچ پانچ گنبد تعمیر کیے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی گنبد دراصل اس عمارت کی خوبصورتی کا اصل راز بھی ہیں۔ یہ کراچی کی انتہائی خوبصورت اور پرُکشش عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا فن تعمیر آگرہ کے لال قلعہ ‘ لاہور کی بادشاہی مسجد ‘ دہلی کے مغل حکمرانوں کی عمارات کی یاد تازہ کرتا ہے۔عمارت میں تہہ خانہ کے علاوہ کئی بڑے بڑے دالان یا ہال ‘ کمرے ‘ کشادہ بارہ دری‘ نو گول اور دو لمبوترے گنبد ہیں۔ اس عمارت کی بارہ دری سے سمندر کا منظر بے حد دل آویز اور سحر آفریں ہوتا ہے۔


مسٹر موہٹہ اکثر یہاں حکام بالا اور شہر کے معزز افراد کے اعزاز میں پارٹیاں منعقد کرتےتھےاور غریبوں میں کھانا بھی تقسیم ہوتا تھا۔ ہندو برادری کے تہواروں ہولی‘ دیوالی‘ دسہرہ ا ور دیگر موقعوں پر یہاں رنگا رنگ تقریبات منعقد ہوتی تھیں، جن میں برصغیر کے نامور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ ان تقریبات میں مسٹر موہٹہ جب اپنے روایتی مارواڑی لباس کو زیب تن کر کے اور اپنے کانوں میں ہیرے کے بُندے پہن کر اسٹیج پر پرشکوہ انداز میں بیٹھتے تو وہ کسی ہندو راجہ مہاراجہ سے کم نہ لگتے ۔ اس عمارت میں مسٹر موہٹہ نے آغا خان سوئم سرسلطان محمد شاہ کے اعزاز میں بھی ایک پُروقار ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔جس میں تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما لیڈی غلام حسین ہدایت اللہ نے بھی شرکت کی تھی۔

  یہ محل نما عمارت شیورتن موہٹہ کی پسندیدہ رہائش گاہ تھی۔لیکن  اس محل کی تعمیر کے 14 سال بعد ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنا لیا گیا، فیصلہ یہ ٹھہرا کہ جن کے پاس ایک سے زائد گھر ہیں، ان کا ایک گھر حکومت اپنے قبضے میں لے لے گی اور  ایک روز  شیورتن کو ایک با اثر شخصیت کی کال آئ کہ ان کا  موہٹہ محل حکومت پاکستان کو وزارت خارجہ کا دفتر بنا  نے کو درکار ہے  موہٹہ خاندان  پھر ہمیشہ کے لیے  کراچی  چھوڑ گیا- شیورتن موہٹہ کے بھارت چلے جانے کے بعد اس عمارت کو وزارت خارجہ کے حوالے کر دیا گیا۔

2 تبصرے:

  1. مارواڑ کا خطہ تجارت کے لئے مشہور تھا اور بہت دولت مند لوگ اور تاجر وں کا علاقہ تھا

    جواب دیںحذف کریں
  2. شیورتن کی اہلیہ ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اگر اُنھیں ساحلِ سمندر کے قریب رکھا جائے تو سمندری ہوا سے اُن کی صحت بہتر ہو سکتی ہے۔ بس پھر کیا تھا، سیٹھ شیورتن نے ٹھان لی کہ بحیرہ عرب کے کنارے ایک ایسا خوبصورت محل بنائیں گے جس کی نظیر پورے کراچی میں نہیں ملے گی۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر