بدھ، 6 مارچ، 2024

سید شمس الدین سبزواری

 

 تاریخ گواہ ہے کہ برّصغیر کی زمین ہند پر سر زمین حجاز سے آنے والے ولیوں نے بڑی مشقّت  اور جانفشانی سے یہاں اسلام کے پھیلاو میں اپنا کردار ادا کیا ان ولیوں میں ایک بلند پایہ ولی حضرت  سید شمس الدین سبزواری   بھی   ہیں جنکا  مزار ملتان میں ہے آپکا شجرہ نسب چند پشتوں کے بعد مولا امام جعفرصادق ع سے جاکر ملتا ہے آپ صوبہ خراسان کی بستی سبزوار میں 560ہجری میں پیدا ہوئے آپ کے والد سید صلاح الدین گرم کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے سید صلاح الدین عالم فاضل اور دیندار مبلغ تھے فاطمیوں کے نقیب خاموشی کے ساتھ عالم اسلام میں پھیلائے گئے سید صلاح الدین کا خاندان کس داعی کے ساتھ سبزوار آیا پتہ نہیں چلتا سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کا نام شمس الدین رکھا آپکا شجرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے مولا امام جعفر صادق ع _ امام ذادہ اسماعیل _سید محمد عریضی _سید زید(اسماعیل ثانی) _سید معصوم شاہ _سید غالب الدین _سید عبدالمجید _مستنصرباللہ_سید محمد ہادی_محمد ہاشم(مدفون یمن) سید محمود سبزواری(مدفون لاہور)_سید محب مشتاق_سید خالد الدین_سید صلاح الدین _شمس الدین سبزواری(مدفون ملتان)مناسب وقت پر شمس الدین کی تعلیم و تربیت کی فارسی و عربی میں سمجھ بوجھ کے بعد قرآن حدیث تفسیر فقہ کی طرف لائے

یوں ایمانیات عبادات معملات کی بنیادیں مضبوط کرکے شیعیت کے ساتھ طریقت کو شامل کیا تذکرتہ اولیاء فرید الدین عطار میں ہے کہ سید صلاح الدین ایرانی صوفیائے کرام کی پیدا کردہ روحانی ہوا و فضا میں سانس لے رہے تھے اندازہ ہے کہ سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کو تعلیمات چہاردہ معصومین ع سے روشناس کرایا کیونکہ آخری فاطمی خلفاء اثنا عشری مسلک رکھتے تھےبعض مورخین شاہ شمس سبزواری کو شاہ شمس اسماعیلی کہتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت اسماعیل بن امام جعفرصادق ع کی اولاد سے ہیں نہ کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کی درگاہ عالیہ میں امام بارگاہ موجود ہے جہاں قدیم عرصہ سے مجالس امام حسین ع کا اہتمام ہوتا ہے ہر جمعرات کو ہفتہ وار مجالس عزا برپا ہوتی ہیں بارہ اماموں کے حوالے سے دیگر تقاریب کا انقعاد ہوتا ہے-

یہ ہی دستور درگار بی بی پاک دامناں درگاہ امام بری درگا شہباز لعل قلندر پر نافذ العمل ہے بعض مورخین نے شاہ شمس تبریزی کو کو ملتان کی سر زمین پر عزاداری کا آغاز کرنے والا درج کیا ہے سید صلاح الدین کا انتقال 665ہجری میں ہوا اس دور میں عالم اسلام مغلوں کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے زلزلہ میں آگیا تھا سید شمس الدین سبزوار سے نکلے 666ہجری میں ملتان میں وارد ہوئے متاخرین تذکرہ نگاروں نے حکایت اولیا سنائی کہتے ہیں کہ بہاؤالدین زکریا نے آپ کی خبر پائی تو دودھ کا پیالہ لباب بھیجا مطلب یہ تھا یہاں اہل اللہ کی بھیڑ بھاڑ ہے تمہاری گنجائش نہیں ہے حضرت شاہ شمس الدین نے پیالہ دودھ پر گلاب کا پھول تیرا دیا اور اپنی گنجائش کا جواز دکھلایا حضرت بہاؤالدین زکریا کے پوتے سے شاہ شمس کے گہرے روابط تھے خطاب رکن الدین والعالم شاہ شمس کا عطا کردہ ہے جو بعد ازاں شاہ رکن عالم بن گیا تذکرہ نگاروں نے حکایات اولیاء میں ایک اور اضافہ کیا ہے سید شمس الدین نے جلادوں کو اپنی کھال اتار کر دے دی


 اب کوئی انہیں اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا تھا بھوک نے ستایا تو لب دریا آئے مچھلیاں ابھرنے لگیں ایک مچھلی پکڑی مگر ملتانیوں نے اسے بھوننے سے انکار کر دیا آپ نے سورج کو حکم دیا تبش بکن سورج سوا نیزے پر اتر آیا اور مچھلی بھون دی جسے آپ نے تناول فرمایا اسی وجہ سے ملتانی آپ کو تپ ریز(گرمی دینے والا)کہنے لگے بعد میں تپ ریز تت ریز تب ریز اور تبریز ہوا یوں شمس الدین سبزواری شمس تبریزی ہوئے ملتان کی شدید گرمی اسی وجہ سے ہے ورنہ ملتان کی آب و ہوا خوشگوار معتدل تھی نو تعمیر سہ دری کی پیشانی پر آئمہ اہل بیت اطہار ع کے اسم گرامی لکھے ہوئے ہیں بورڈ پر لکھا ہے "کربلا دربار شاہ شمس تبریز" مزار شریف کے چبوترے پر ایک چھوٹا سے دروازہ ہے بورڈ پر لکھا ہے حضرت شمس الدین ولی سبزواری جبکہ مزار شریف کے اندر لکھا ہوا ہے حضرت شاہ شمس تبریز یہ تضاد عوام کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے

 بعض مورخین نے اسی وجہ سے شمس الدین سبزواری کو ہی شمس الدین تبریزی مانا ہے جیسا کہ تاریخ انوار السادات المعروف گلستان فاطمہ میں لکھا ہے کہ مخدوم سید شمس الدین تبریزی کی ولادت ماہ شعبان بقول ماہ رجب بروز جمعہ 560 ہجری میں شہر سبزوار میں ہوئی علم فضل و تقوی اور طہارت میں بے عدیل صاحب کرامت ہوئے جب آپ اپنے والد صلاح الدین کے ہمراہ کشمیر و تبعت بغرض دعوت اسلام تشریف لے گئے تو وہاں شمس الدین عراقی کہلائےاور جب عرصہ تک تبریز میں مقیم رہے تو تبریزی کہلائے 675 ہجری میں وفات پائی مزار ملت میں ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ اس بات کا تاریخی شواہد کے لحاظ سے حقیت کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ شمس الدین سبزواری کا کسی طور پر بھی تبریز سے کوئی واسطہ نہیں ہے تبریز کہلانے کی وجہ وہ صرف تپ ریز ہے جو بعد میں تبریز ہو گیا جبکہ شمس تبریزی مولانا روم کے استاد تھے جنکا مزار قونیہ میں آج بھی موجود ہے اسی طرح شمس الدین عراقی اور ہیں جنکا مزار کشمیر میں ہے انکا انتقال 924ہجری میں ہوا سید شمس الدین نے گیارہ سال ملتان میں تبلیغ کی اور 677ہجری کو ملتان میں وفات پائی حجرہ کے قریب سپرد خاک کیا گیا قبر پر مقبرہ آپ کے پوتے سید صدر الدین نے تعمیر کرایا سیٹھ مہر دین نے عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا - نماز پنجگانہ نماز عید بقر فطر پر مکمل طور پر پابندی تھی انگریزوں کے ملتان پر قبضے کے بعد 1850ء میں مقبرہ و مسجد مسلمانوں کو دے دی گئ آپ کے صرف ایک ہی فرزند صاحب اولاد ہوئے جنکا نام نصرالدین ہے جو لاہور میں دفن ہیں  -

*ایلوویرا کرشمہ سازپودا*


ایلو ویرا کا  تعارف   اورفوائد - ایلو ویرا- ایلو جینس کے پودوں کی ایک خاص قسم ہے۔۔ ایلو ویرا کو  اردو میں گھیکوار پنجابی میں کوارگند ل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایلو ویرا   کے   بے شمار فوائد ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں درج ہیں یہ ایک ایسا پودا ہے جس میں طبی فوائد کی دولت ہے۔یہ کئی قسم کی جلد کی بیماریوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ موئسچرائزر اور اینٹی سوزش کا کام کرتا ہےیہ وہ تمام خصوصیات ہیں جو بتاتی ہیں کہ روزانہ صبح نہار منہ ایلوویرا کا جوس پئیں،  ڈاکٹر کھانے میں ایلوویرا کا استعمال تجویز کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ بہت سی بیماریوں کے علاج میں بہترین کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا استعمال بہت سی بیماریوں جیسے بدہضمی، دانت کا درد، بالوں کا گرنا یا سر کی خشکی، جوڑوں میں درد اور دراڑ، خوبصورتی اور دیگر کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا گودا جگر اور تلی کے امراض میں بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ جگر کی بیماری میں مبتلا افراد کو ایلوویرا کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیے۔


 نزلہ اور کھانسی بہت عام بیماریاں ہیں جو اکثر خاندانوں میں چلتی ہیں۔ ایسی صورت میں بھنے ہوئے ایلوویرا کے پتوں کا رس شہد کے ساتھ پینا بہترین علاج ہے۔ ایسا کرنے سے پرانی زکام بہت کم وقت میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ایلوویرا کمر درد، جوڑوں کے درد میں موثر ہے۔ روزانہ ایک پتے کا گودا کھانا اس کے موثر علاج کے لیے مفید ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس پتے کو گھی کے ساتھ کھا سکتے ہیں، یہ مختلف غدود کو فعال کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ ایک پتی کا گودا کالے نمک اور ادرک کے ساتھ روزانہ صبح دس دن تک کھانے سے جگر کے امراض میں فائدہ ہوتا ہے۔ اور موئس غدود کے مسائل سے نجات کا ذریعہ ہے۔

ایلو ویرا سے   علاج-جوڑوں کے درد اور مجموعی جسمانی کمزوری کو دور کرنے کے لیے ایک امرت سمجھا جاتا ہے۔ Gynecomastia کے مریض بھی ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایلو ویرا جیل کا استعمال جلد کے داغ دھبے دور کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے ایلو ویرا جیل کا استعمال چہرے کو شیو کرنے کے بعد بہترین ہے۔ . چونکہ مردوں کو شیونگ کے دوران ان کے چہروں پر معمولی زخم آتے ہیں، اس سلسلے میں اگر وہ ایلو ویرا کا گودا اپنے چہروں پر لگائیں تو اس سے انہیں ٹھنڈک بھی ملے گی اور ان کے زخم بھی جلد بھر جائیں گے۔ جو نہ صرف آنتوں میں پانی کی مقدار کو بڑھاتا ہے بلکہ فضلہ کی نقل و حرکت میں بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔ پیٹ کی جلن پر قابو پانے کے لیے کھانے سے پہلے آدھا کپ ایلو ویرا جیل پی لیں۔ پیٹ کی جلن یا تیزابیت کے لیے ضرورت پڑنے پر اسے پی لیں۔

 ایلوویرا نظام ہاضمہ کو بہتر بناتا ہے اگر آپ بدہضمی کا شکار ہیں تو ایلوویرا کے استعمال سے اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے پورے نظام انہضام کو درست کرنے کا ایک بہت مقبول اور مفید طریقہ ہے۔ یہ قبض اور اسہال کو دور کرنے میں بھی بہت مفید ہے۔ یہ اخراج کے نظام کو بھی درست کرتا ہے۔ایلوویرا کرشمہ سازپودا ایلو ویرا سے خشک جلد کا علاج-ایلوویراکا استعمال ہزاروں سالوں سے ہورہا ہے۔ یہ صحت کے مختلف مسائل حل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ایلو ویرا ہماری جلد، ہمارے بال اور وزن کم کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کیسے ایلوویرا کی مدد سے ہم اپنی جلد خوبصورت بناسکتے ہیں اور کس جلد کے لئے یہ مفید ہوتا ہے؟یہ جاننے کے لئے یہ بلاگ آپ کے لئے مددگار موسم بدلتے ہی اکثرخواتین اور بوڑھے افرادجلد کےخشک ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔خشک جلد دراصل جلد کی ایک بہت عام حالت ہے جوکہ جلد کی بیرونی تہہ، ایپیڈرمس میں مناسب پانی کی کمی سے ہوتی ہے۔خشک جلد مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے، لیکن بوڑھے لوگ خشک جلد کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ہم اپنی جلد میں نمی بحال کرکے خشک جلد کے مسائل سے بچ سکتے ہیں ۔ 


 حساس جلد کے لئے ایک چمچ  ایلو ویرا جیل لیں 2 ایک چمچ  کھیرے کا جوس۔ 3 ایک چمچ دہی اور گلاب کا عرق شامل کریں 4 ان سب چیزوں کو بلینڈ کرلیں۔ اس کو اپنے چہرے پر 20 منٹ کے لئے لگائیں۔کیا ایلو ویرا نقصان دہ ہے؟ کسی بھی چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ کسی کو بھی ایلو ویرا سے الرجی ہوسکتی ہے۔  اگر ایلو ویرا کو لگا کر آپ کو جلن محسوس ہو تو آپ اسکا استعمال نہ کریں ایلو ویرا  بیماری کو دور کرنے کے لئے بھی کھایا جاتا ہے۔۔  لیکن حاملہ خواتین کو یا وہ جو بچوں کو دوددھ پلاتی ہیں ان کو ایلو ویرا کے استعمال میں احتیاط سے کرنی چاہیے۔

اس لئے ایلو ویرا کو انٹرنلی استعمال سے پہلے مشورہ کرنا چاہیے کہ یہ کن افراد کو استعمال کرنی چاہیے اور کن افراد کو نہیں۔ورنہ یہ آپ کے لئے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اس کا استعمال کریں لیکن احتیاط کے ساتھ ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔  اپنی جلد کے لیے بہترین ایلو ویرا جیل کا انتخاب کیسے کریں؟ایلو ویرا کے جلد کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے، یہ بہتر ہے کہ خالص ایلو ویرا جیل خریدیں، بجائے اس کے کہ تیار شدہ پروڈکٹ، جہاں ایلو ویرا کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔

منگل، 5 مارچ، 2024

گلوری ایک تہذیبی روائت


قیام پاکستان کے بعد میں نے جس سماج میں آنکھ کھولی وہ صدیوں کا روایات کاپابند معاشرہ تھا -ان رسومات میں ایک روائت یہ بھی تھی کہ گھر میں آنے والے مہمان کی پان سے تواضع کرنا اگر گھر کی بزرگ خاتون نے مہمان کی عمر چھوٹی ہوتی تو بزرگ خاتون سے کھڑے ہو کر ان سے پان با ادب طریقے سے لیتا اور پھر جھک کر آداب بجا لاتا جس کے جواب میں بزر گ خاتون سے دعائیں لیتا -اورآنےوالا مہمان بزرگ ہوتا تو اس کے لئے گھر کا کوئ بچہ یا بڑا تھالی میں سلیقہ سے رکھی گئ  گلوری پیش کرتا -پاندا ن ہر گھر کی تہذیبی روائت کا لازمی حصّہ ہوا کرتا تھا جو گھر کی سب سے بزرگ خاتون کی کسٹڈی میں رہتا تھا -گھر کے کسی طاق میں کتھّے اور چونے کی ڈھکی ہوئ کلہیاں ہمہ وقت رہا کرتی تھیں -تاکہ پاندان کو محفوظ اسٹاک میں کمی نا ہونے پائے -گھر میں کنواری لڑکیاں پان نہیں کھا سکتی تھی لیکن بیاہی کے کھانا لازم تھا تاکہ ان کے شوہروں کی نظروں میں پان کا رنگ محبّت کے دئے جلائے رکھے

گلوری-گلوری برصغیر میں ایک خاص وضع پر لپٹے ہوئے پان کو کہا جاتا ہے جو تقسیم ہند سے قبل نوابوں اور رؤسا کے یہاں انتہائی مقبول، ہندوستانی ثقافت کا اہم جز اور ضیافت و وضعداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ۔ گلوری اس وقت بھی رائج ہے، گلوری پیش کرتے وقت عموماً اس پر کسا ہوا کھوپرا اور لونگ کی کیلیں یا لکڑی کا خلال لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اہتمام اور احتشام اب مفقود ہے جو شہنشاہوں، رؤسا اور عمائدین کے یہاں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کی نفاست طبع اور لطافت مزاج نے پان تیار کرنے، پان کے اجزائے ترکیبی میں ذائقہ پیدا کرنے اور پان بنانے کو فن کے درجہ تک پہنچا دیا تھا مشرقی معاشرت میں گلوری پیش کرنا آداب ضیافت میں شامل تھا، اگر کسی مہمان کی گلوری سے تواضع نہیں کی جاتی تو میزبان کے اس عمل کو توہین کے مترادف سمجھا جاتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں پانوں اور گلوریوں کی خصوصی اہمیت تھی   پورے ہندوستان میں  یہ ایک تہذیب کی علامت تھا بلکہ کئی جگہ  پہ ابھی بھی ہے- کچھ کہتے ہیں کہ اول اول کسی بادشاہ کو اس کے شاہی طبیب نے علاج کے طور پر تجویز کیا تھا- کتھا، چونا اور چھالیہ اس کے بنیادی اجزاء تھے اور ہیں- پھر اس میں انواع اقسام کے تمباکو اور قوام شامل ہوتے چلے گئے-

   لڑکیوں کےجہیز میں پاندان سب سے اہم چیز سمجھی جاتی   تھی، دلہن کو دو طرح کے پاندان دیے جاتے۔ ایک چاندی کا مرصع پاندان اور دوسرا عمومی استعمال کے لیے تانبے کا قلعی شدہ پاندان۔مغل شاہی حکومتوں کے دربار میں پان اور عطر تقسیم کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں انگریز وائسراؤں کی لاج میں مہمان کی پان اور عطر سے ضیافت کی جاتی تھی۔ جس سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بھی مسلمان بادشاہوں کی اس قدیم روایات کو باقی رکھا-گلوری کی روائت پاندان اور خاصدان کی کہانی-پان کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ہندو مائتھالوجی میں بیان کیا گیا ہے کرشنا جی پان کھاتے تھے، ہزاروں برس سے حکیم اس کو بطور دوا بھی استعمال کرواتے تھے ہندو مذہبی روایات میں بھی پان کا بہت دخل ہے۔  لونگ، الائچی ، کھوپرہ اورسونف بہت سی بیماریوں  ‎جب سے ہندوستان می نوابوں، مہاراجوں اور راج واڑوں کا دورشروع ہوا غالباً اسی وقت سے یہاں پان کھانے کا رواج ملتاہے، لکھنو اور حیدرآباد کی تہذیبی ثقافت میں پان کو ہمیشہ کلیدی حیثیت حاصل رہی ، اس زمانے میں پان دان جہیز میں دینا لازمی ہوا کرتا۔ پاندان کے ساتھ خاصدان ،اگلدان ،پان کی ڈبیہ یا تھالی بھی دی جاتی جبکہ پان کھانے کے آداب بھی ہوا کرتے تھے-

گلوری کے لوازمات میں خاصدان، پاندان، اگالدان، گلوری دان، پیک دان، سروتا، چنگیر، پن کٹی وغیرہ شامل تھے۔ دفتر یا سفر میں لے جانے کے لیے چاندی کی منقش ڈبیا کا استعمال عام تھا۔ مغل سلاطین اور ان کا خاندان گلوری کے انتہائی شائق تھے۔ قلعہ معلی میں گلوری عموماً ڈیڑھ پان کی بنائی جاتی اور لپیٹ کر اس میں سونے، چاندی، لوہے یا لونگ کی کیل لگا دی جاتی تھی -سچی بات تو یہ ہے کہ پان اور اس کے مروجہ ضروری مصالحہ جات کے خواص اور افعال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تمباکو کے پان کا استعمال منہ کے امراض کے لئے نہایت مفید ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ جو چیزیں نفع بخش ہوں ان کو مضر کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ادویات کا استعمال مخصوص اوقات میں ہوتا ہے غیر اوقات میں ان کا استعمال کچھ ٹھیک نہیں۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ اگر پان کو درجہ اعتدال پر استعمال کیا جائے تو انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کا استعمال نہایت ہی فائدہ بخش ہے۔ 

بالخصوص  , درد داندان, گندہ دہنی اور مسوڑھوں کے لئے نہایت نافع ہے- اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں مثلاً ذائقہ کا درست ہونا, زبان اور مسوڑھوں کے زخم مندمل ہونا, حلق کی خرابی سے محفوظ رہنا, کھانا کھانے کے بعد منھ کو صاف کرنے اور اس کی تمام کثافت کو دور کرنا وغیرہ- پان کے بیڑے کے استعمال سے طبعیت کو فرحت ملتی ہے اور خصوصاً موسم سرما میں گرمی پہنچاتا ہے۔نامرغوب چیز کے استعمال کے بعد کھانے سے کراہت دفع ہوجاتی ہے اور منہ  صاف ہوجاتا ہے۔ کھانے کے بعد پان کا استعمال ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کھانے کے ساتھ اکثر نامعلوم طور پر کچھ جراثیم پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ پان کا عرق اور دوسرے اجزاء ان جراثیم کو مار ڈالتے ہیں اور اس طرح ہم بہت سی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ پان کے کھانے کے بعد پیدا ہونے والی سرخی کی وجہ سے چہرے  پر خوبصورتی  بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے لوگ (خصوصاً صنف نازک) اس کو افزائش جمال کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی پان ہی ایک ایسی مہذب اور کم خرچ تواضح ہے جسے غریب سے غریب پیش کر کے اپنے جذبات محبت ایک دوسرے پر آشکار کرسکتے ہیں 

ہفتہ، 2 مارچ، 2024

این ای ڈی کراچی یونیورسٹی

   

صوبہ  سندھ  کے دارالحکومت کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی سندھ میں انجینئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا سب سے پرانا ادارہ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی مزید چار سال کیلئے شیخ الجامعہ این ای ڈی مقرر کر دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق یونیورسٹیز اینڈ بورڈز حکومتِ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی کو مزید چار سال کیلئے این ای ڈی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ سال 2021ء میں این ای ڈی یونیورسٹی اپنے سو برس مکمل کر چکی ہے۔اس عظیم درسگا ہ کے قیام کا سہرا سو برس پیچھے کراچی کی پارسی کمیو نٹی کے  سرکردہ 'علم دوست مخیر فرد نادر شا ایڈلجی ڈنشا  کے سر جاتا ہے -کراچی میں واقع این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے رواں سال یعنی2021 میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل کیے ہیں، ملک کے اس اہم تعلیمی ادارے کو1921 میں قائم کیا گیا تھا۔ انجینئرنگ کے شعبے میں گریجویٹس کی تعلیم و تربیت کے لیے معروف این ای ڈی یونیورسٹی پاکستان کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔اس سے پہلے این ای ڈی یونیورسٹی کا ​​نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ این ای ڈی یو ای ٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے انکشاف کیا کہ اس انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد 1921 میں پرنس آف ویلز کے دورے کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ڈاکٹر حشمت لودھی نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل جیکسن نام کے ایک برطانوی افسر اس کالج کے قیام کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے۔

پروفیسر لودھی نے بتایا کہ اس تاریخی ادارے میں 540 سے زیادہ ماہر تعلیم لیکچرارز اور پروفیسرز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں 200 پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی 34 انڈرگریجویٹ، 50 سے زیادہ ماسٹرز اور 21 پی ایچ ڈی پروگرامز کی پیش کش کرتی ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ تعلیمی ادارہ بمبئی  یونیورسٹی سے وابستہ تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد یہ حکومت سندھ کے دائرہ اختیار میں آگیا۔این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں اس وقت پانچ کلیات کے تحت اکیس شعبہ جات میں چھ ہز سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں سے ڈیڑھ ہزار کے قریب تعداد خواتین کی ہے۔اس ادارے کا قیام انیس سو بائیس میں عمل میں آیا جب پرنس آف ویلز کے کراچی کے دورے کے موقع پر کراچی کے شہریوں نے عطیات جمع کر کے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔اس وقت اس کا نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ یہ اس وقت صوبہ سندھ کا واحد انجینئرنگ کالج تھا۔

انیس سو چوبیس میں اس کا نام اس وقت کی معروف سماجی شخصیت نادر شاہ ادولجی ڈنشا کی پہلی برسی کے موقع پر ان کےخاندان کی جانب سے بہت خطیر رقم بطور امداد ملنے کے بعد اس کا نام نادر شاہ ادولجی ڈنشا انجینئرنگ کالج رکھ دیاگیا۔ اس وقت اس کالج کا الحاق بمبئی یونیورسٹی سے تھا۔انیسو سینتالیس میں قیامِ پاکستان کے بعد اس کا انتظام سندھ حکومت نے سنبھال لیا اور اس کا الحاق سندھ یونیورسٹی سے کر دیاگیا۔انیس سو اکاون میں جامعہ کراچی کے قیام کے بعد اس کا الحاق جامعہ کراچی سے کردیاگیا جو انیس سو ستتر تک جاری رہا۔ 1977 میں اسے باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دے دیاگیا۔اس یونیورسٹی میں کوئی گزشتہ بارہ برسوں سے اس بات بہت پر بہت زور دیا جا رہا ہے کہ تعلیمی سال کو مکمل کیا جائے اسی لیے جب کراچی شہر کے حالات کی وجہ سے جامعہ بند رہتی ہے تو اس کی کسر روز کی کلاسز کے اوقات میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور کبھی کبھی  اتوار کے روز بھی تدریس کے عمل کو جاری رکھا جاتا ہے تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مطلوبہ کریڈٹ آور پورے کیے جا سکیں۔اس جامعہ میں داخل ہوتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کے اس کا نظم و نسق دوسری جامعات سے مختلف ہے۔یونیورسٹی کے کیمپس کی عمارتیں اور ماحول دیگر سرکاری جامعات کی نسبت زیادہ بہتر اور صاف ستھرا ہے۔

سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری 

رکھاسندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔یہ یونیورسٹی برطانوی حکومت کے قائم ہونے کے بعد اپنی جدید شکل میں آئی اور سنہ 1947ء میں حکومت سندھ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ سنہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد جیسے جیسے کراچی ترقی کرتا گیا اور پرانا 'سٹی کیمپس' بہت زیادہ پر ہجوم ہو گیا، سنہ 1975ء میں یونیورسٹی روڈ، کراچی پر اس کے موجودہ مقام پر ایک نیا 'مین کیمپس' تعمیر کیا گیا۔ آخر کار یکم مارچ 1977ء کو این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کو انجینئرنگ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کا نام اس کے محسن نادرشا ایڈولجی ڈنشا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 

سلطنت چندر گپت موریا،


  روئے زمین پر انسانی قدموں کے آنے سے لیکر آج تک نا جانے کتنی تہذیبوں نے جنم لیا اور کچھ عروج پا کر فنا فی اللہ ہو گئیں لیکن کچھ تہزیبیں مٹ کر بھی زمانے کو اپنے انمٹ نقوش دے گئیں -ان تہذیبوں میں موریہ تہذیب بھی آج تک زندہ ہے -تو آئیے  موریہ تہذیب کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں -موریہ سلطنت کا پایہ تخت پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) تھا، یہ بہت شاندار شہر تھا اور گنگا کے کنارے کنارے نو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی شہر پناہ میں 64 بڑے دروازے اور سینکڑوں چھوٹے دروازے تھے۔ مکان زیادہ تر لکڑیوں کے بنے ہوئے تھے اور چوں کہ آگ لگنے کا ڈررہتا تھا اس لئے آگ بجھانے کا بہت معقول انتظام تھا،خاص خاص سڑکوں پر پانی سے بھرے ہزاروں گھڑے ہر وقت رکھے رہتے تھے۔ ہر ایک گھر گرہست کو بھی اپنے  اگر کوئی آدمی سڑک پر کیچڑ اور پانی جمع ہونے دیتا تھا تو اس پر جرمانہ کیاجاتا تھا۔ اگر ان قاعدوں کی پابندی ہوتی رہی ہو گی تو پاٹلی پتر یا دوسریے اور شہر یقینا بہت خوبصورت اور صاف ستھرے رہے ہوں گے۔پاٹلی پتر میں شہری انتظام کے لئے ایک میونسپل کونسل تھی۔ تمام شہری اس کونسل کے ممبروں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس میں 30 ممبر ہوتے تھے۔ ان میں سے پانچ پانچ ممبروں پر مشتمل چھ کمیٹیاں تشکیل کی جاتی تھیں۔ شہری صنعت و حرفت کی حوصلہ افزائی اور دیکھ ریکھ، مسافروں اور تیرتھ یاتریوں کے آرام اور حفاظت کے انتظامات، فوتگی اور پیدائش کے اندراجات اور دوسری چیزیوں کا انتظام انہیں کمیٹیوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔

 ایک عجیب و غریب سامان تفریح بیلوں کی دوڑتھی۔ اس میں شرطیں لگائی جاتی تھیں۔ بادشاہ نہایت دلچسپی سے اس کا تماشا  دیکھا کرتا تھا۔ اور بیلوں کو گاڑیوں میں جوت کر ڈوراتے تھے اور ان کے علاوہ گھوڑے بھی گاڑیوں میں جوت کر انھیں بھی دوڑاتے تھے۔ جب وہ شکار کے لیے شکار پر جاتا تھا تو اس کے ہم رکاب عورتوں کی فوج کا ایک دستہ ہوتا تھا۔ دوسرے ملکوں سے خریدی ہوئ یہ غلام عورتیں  ہندی راجاؤں کے دربار کا ایک ضروری جزو ہوا کرتی تھیں۔ شاہی گذر دونوں جانب رسی بنی ہوتی تھی اور اس کے پار جانے کی سزا موت تھی شاہی شکار کے دستور کو چندرا گپتا کے پوتے اشوک نے 952 ق م میں موقوف کر دیا تھا۔

 عام طور پر راجا محل میں زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتا  تھا اور محل کے اندر عورتوں کی فوج اس کو گھیرے رہتی تھی۔ محل سے باہر صرف بھینٹ چڑھانے یا فوج کشی یا شکار کے موقعوں پر نکلا کرتا تھا۔ راجا اپنی سالگرہ میں نہایت تزک و احتشام سے اپنے سر کے بال دھوتا تھا۔ سالگرہ کے موقع پر بڑی عید منائی جاتی تھی اور اس موقع بڑے بڑے امرا سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بیش بہا نذرانے راجا کی خدمت میں پیش کریں۔ اس تزک و احتشام اور شان اور شوکت اور ہر قسم کی حفاظت کے باوجود راجا کبھی بھی سازشوں اور بغاوتوں سے بے خوف نہ ہوتا تھا۔  راجا قانون کے مطابق اپنی سلطنت کے تمام خشک و تر کا مالک تھا۔ لگان کے ساتھ آب پاشی کا محصول بھی عائد تھا۔ جس کی شرح پانچویں سے تیسرے حصہ پیداوار کے مابین تھی۔

 بعض حالتوں میں دوسرے ابواب بھی زمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ دریا کے گھاٹوں پر بھی حکومتی کشتیاں ہوتی تھیں جن کا کرایا سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ شہر کے اندر پیدائش اور موت پر محصول لگا ہوا تھا۔ یہ بھی حکومتی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ جرمانہ کی رقم بھی معقول ہوتی تھی۔ مجرمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ ان محصولات کے علاوہ خراج کی آمدنی بھی تھی جو  ریاستوں سے وصول کی جاتی تھی۔  صفائی ستھرائی، آمدوخرچ، پانی کا انتظام، باغ باغیچے اور پبلک عمارتوں کی دیکھ ریکھ کا انتظام کرتی تھی۔انصاف کرنے کے لئے پنچایتیں اور اپیل سننے کے لئے عدالتیں قائم تھیں۔ قحط زدوں کی مدد کا خاص انتظام ہوتا تھا۔ سرکاری گودام کا آدھا غلہ قحط زدوں کی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھا جاتا تھا- مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجا کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔

۔یہ تھی اس موریہ سلطنت کی ایک جھلک جس کی آج سے 22 سو سال پہلے چانکیہ اور چندر گپت نے تنظیم کی تھی۔ پاٹلی پتر کی راج دھانی سے لے کر اس عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے شہروں اور ہزاروں قصبوں اور گاؤں تک سارے ملک میں زندگی رواں دواں اور چہل پہل سے بھرپور تھی۔ سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ ایک شاہراہ پاٹلی پتر سے شمال مغربی سرحد کو چلی گئی تھی۔ بہت سی نہریں تھیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک محکمہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ جہاز رانی کا شعبہ بھی تھا۔ جو بندرگاہوں، گھاٹوں، پلوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے والے متعدد جہازوں اور کشتیوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ جہاز سمندر پار چین اور برما تک جاتے تھے۔اس عظیم الشان سلطنت پر چندر گپت نے 24 سال تک حکومت کی۔ 296 قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا


 

جمعہ، 1 مارچ، 2024

اضطراب (انگزائٹی ) کا کیا علاج ہے؟

  

 ہمارے ہی معاشرے میں کچھ لوگوں کے مزاج میں ایسی بے چینی سی گردش کرتی رہتی ہے جسے کوئ نام نہیں دیا جا سکتا ہے -اور یہی بے چینی ان کو مستقل طور پر مضطرب رکھتی ہے -آج کے ماڈرن معاشرے نے اس بیماری کو ڈپریشن یا انگزائٹی کا نام دیا ہے اس بیماری کی بنیا د انسان کے ناقابل حل مسائل سے جڑا ہوتا ہے -لیکن کبھی 'کبھی انسان اپنے اوپر بلاوجہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اپنے زہن پر اس طر ح سوار کر لیتا جس سے وہ اس نادیدہ مرض کے شکنجے میں آجاتا ہے ۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی طبیعت جینز کے ذریعے وراثت میں بھی مل سکتی ہے۔ تاہم وہ لوگ بھی جو قدرتی طور پر ہر وقت پریشان نہ رہتے ہوں اگر ان پر بھی مستقل دباو  پڑتا رہے تو وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھار گھبراہٹ کی وجہ بہت واضح ہوتی ہے اور جب مسئلہ حل ہوجائے تو گھبراہٹ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کچھ واقعات اور حالات اتنے تکلیف دہ اور خوفناک ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ واقعات کے ختم ہونے کے طویل عرصے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یہ عام طور پر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جن میں انسان کی جان کو خطرہ ہو۔ مثلاً کار یا ٹرین کے حادثات اور آگ وغیرہ۔ ان واقعات میں شامل افراد مہینوں یا سالوں تک گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہ سکتے ہیں ۔ یہ علامات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں پائی جاتی ہیں۔ انگزائٹی یا گھبراہٹ کی چند نمایاں علامات ،دل کی دھڑکن محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا،پٹھوں میں کھنچاو¿ اور درد ہونا،سانس کا تیزی سے چلنا،سر چکرانا،بے ہوش ہو جانے کا ڈر ہونا،بدہضمی، بری خبر، ڈرامہ فلم سے گھبراہٹ ہونا ، خاموش رہنا یا بلا ضرورت گفتگو کرنا، ہر وقت پریشانی کا احساس،تھکن کا احساس،توجہ مرکوز نہ کرپانا،چڑچڑے پن کا احساس،نیند کے مسائل۔

 گھبراہٹ کا شکار افراد ان علامات کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہو گئی ہے، گھبراہٹ سے ان علامات میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے غیر متوقع اچانک دورے پینک (Panic)کہلاتے ہیں۔ اکثر گھبراہٹ اور پینک کے ساتھ ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے بھی گھبراہٹ ہوسکتی ہے اکثر بچے کبھی نہ کبھی کسی وجہ سے ڈر جاتے ہیں۔ نشوونما کے دوران یہ معمول کی بات ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہوجائیں تو بچے بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ بہت سے بچے اندھیرے یا فرضی وجود (جن بھوتوں)سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف عام طور پر بڑے ہونے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور بچوں کی زندگی یا ان کی نشوونما کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اسکول کے پہلے دن جیسے اہم واقعات کے بارے میں خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔انگزائٹی اور ڈیپریشن کے نفسیاتی علاج موجود ہیں -

گر روحانی اور سوشل علاج سے بہتر اور موثر کوئی علاج نہیں۔ ہم خیال اور شفیق دوسروں اور رشتے داروں کی صحبت اختیار کریں۔ گپ شپ اور مثبت گفتگو کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے سے بچیں۔ نفسیاتی امراض کا بہترین ٹوٹکہ شکر گزاری ہے۔ جو پاس ہے اس پر راضی ہو جائیں اور جو چھن گیا اس پر صبر کریں اور جو نہیں مل سکا اس کے لئے بے چین اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا واحد علاج صبر اور شکر ہے۔ رب سے تعلق جوڑنے سے بڑا نسخہ اور علاج کوئی نہیں۔ اور رب سے تعلق جوڑنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ہر مشکل مصیبت پریشانی پر دل سے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں اور ہر نعمت کامیابی اور خوشی پر بھی دل سے رب کا شکر ادا کرنا شروع کر دیں۔یاد رکھیں تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا محور دل اور دماغ ہے۔ دل اور دماغ کو پرسکون کر لیں تمام قلبی روحانی جسمانی نفسیاتی مسائل اور بیماریوں پر قابو پا لیں گے-

۔ اور یہ بھی یاد رکھیں موت کے علاوہ کوئی مصیبت مشکل امتحان رب کی طرف سے نہیں بلکہ بندے کی اپنی کوتاہیوں غلطیوں اور خلاف سنت زندگی گزارنے کے سبب ہے۔سنت کے مطابق شب و روز گزارا جائے تو نہ بلڈ پریشر شوگر انگزائٹی ڈیپریشن اور دیگر امراض لاحق ہوں گے اور نہ ادویات ڈاکٹر ہسپتال کی ضرورت پیش آ ئے گی۔ جسمانی ورزش کم اور وقت پر صحتمند غذا کھانا سونا صحت کی ضمانت ہے۔پہلے زمانے کے بزرگ سادگی اور سنت کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور طویل صحتمند زندگی گزار کر مرتے تھے اور آج نسلیں زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ زندگی انہیں گھسیٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کا طرز زندگی دیکھو جوانی میں بیمار نظر آتے ہیں۔ منشیات سگریٹ نوشی رات بھر جاگنا باہر سے آرڈر پر غیر صحتمند غذا کھانا ، بے صبری عدم برداشت نا شکری اور محبت کی بجائے شارٹ کٹ تلاش کرنا جیسے انداز زندگی نے جوانوں کو مریض بنا دیا ہے۔

بچے اور نوجوان بھی انگزائٹی ڈیپریشن اور فوبیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ صبر اور شکر سے مظبوط تعلّق بھی اضطراب دور کرنے کا بہترین زریعہ ہیں انسان اللہ تعالیٰ سے انسان جتنی دوری اختیار کرتا ہے اور اپنی کوششوں پر بھروسہ کرتا ہے اتنا زیادہ بے چینی کا اوراضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو۔ بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔



جمعرات، 29 فروری، 2024

جمشید نسروانجی 'کراچی کے پہلے مئر


 (پیدائش:7 جنوری، 1886ء - وفات :8 اگست، 1952ء)   کراچی کے پہلے منتخب میئرجمشید نسروانجی مہتاکراچی کے معمار  وں میں سے تھے۔ ان کی محبت کا محور کراچی کی فلاح تھی جس کے لئے وہ دن رات کوشاں رہتے تھے-وہ  کراچی شہر میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پارسی ربادی اسکول اور این جے وی اسکول کراچی سے حاصل کی اور پھر 1900ء میں مزید تعلیم کے لیے ڈی جے کالج کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ 1914ء میں کراچی میونسپلٹی کے رکن بنے اور 1933ء تک اس کے رکن رہے۔ اس دوران 1922ء سے 1933ء تک گیارہ سال تک مسلسل کراچی میونسپل کمیٹی کے صدر اور پھر کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1933ء سے 1934ء پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کی توسیع کے متعدد منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے ۔ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ 

جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے - یہ یقیناً کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔

 تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے"۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید ہر صبح کو یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب 'جنب گزریم جن سیں' (میری زندگی کے ہم سفر) کے صفحہ نمبر 116 پر جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ 

سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصاََ زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام کوارٹرز (علاقوں) میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر میٹرنیٹی ہوم بنوائے اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر