(پیدائش:7 جنوری، 1886ء - وفات :8 اگست، 1952ء) کراچی کے پہلے منتخب میئرجمشید نسروانجی مہتاکراچی کے معمار وں میں سے تھے۔ ان کی محبت کا محور کراچی کی فلاح تھی جس کے لئے وہ دن رات کوشاں رہتے تھے-وہ کراچی شہر میں غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پارسی ربادی اسکول اور این جے وی اسکول کراچی سے حاصل کی اور پھر 1900ء میں مزید تعلیم کے لیے ڈی جے کالج کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ 1914ء میں کراچی میونسپلٹی کے رکن بنے اور 1933ء تک اس کے رکن رہے۔ اس دوران 1922ء سے 1933ء تک گیارہ سال تک مسلسل کراچی میونسپل کمیٹی کے صدر اور پھر کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1933ء سے 1934ء پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ انھوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کی توسیع کے متعدد منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے ۔ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت کی جس کے نتیجے میں وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔
جمشید نسروانجی رستم جی مہتا کراچی میونسپلٹی کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے - یہ یقیناً کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب ’کراچی کی کہانی‘ میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ "میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔
تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے"۔ جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اُسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جمشید یادگاری کمیٹی کی 1954 میں چھپی کتاب میں لکھا ہے کہ جمشید ہر صبح کو یہ دعا کرتے تھے؛ اے خدا میں ہر روز تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں اے خدا مجھے کارآمد بنا اے خدا مجھے بے ضرر بنا اے خدا مجھے شفاف رکھ اے خدا مجھے اپنا ذریعہ بنا میں یہی دعا کرتا ہوں جئے سندھ تحریک کے بانی علیحدگی پسند رہنما سائیں جی ایم سید اپنی کتاب 'جنب گزریم جن سیں' (میری زندگی کے ہم سفر) کے صفحہ نمبر 116 پر جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ جداگانہ انتحابات کی وجہ سے کامیابی کے لیے ان کا انحصار ہندو ووٹرز پر ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔
سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937 میں وہ ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں اسمبلی کے رکن رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہندو اراکین نے چھوٹی بڑی باتوں پر حکومت کی حمایت اور مخالفت شروع کی۔ چوں کہ وہ ہندو ووٹرز کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے ان سے تقاضا کیا جانے لگا کہ وہ ہندو اراکین کی حمایت کریں۔ اس بات پر ناراض ہو کر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت کی سندھی سیاست میں یہ بڑی اہم بات تھی۔ اکثر مسلم اراکین ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کی قربانی دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر فکر مند رہتے تھے۔ خصوصاََ زچگی کے حوالے سے۔ انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام کوارٹرز (علاقوں) میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انھوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنیٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر میٹرنیٹی ہوم بنوائے اُن کی پوری زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیاست کو ہی تبدیلی کا ذریعہ مانتے تھے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لڑائی جھگڑے سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں