صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی سندھ میں انجینئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا سب سے پرانا ادارہ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی مزید چار سال کیلئے شیخ الجامعہ این ای ڈی مقرر کر دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق یونیورسٹیز اینڈ بورڈز حکومتِ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی کو مزید چار سال کیلئے این ای ڈی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ سال 2021ء میں این ای ڈی یونیورسٹی اپنے سو برس مکمل کر چکی ہے۔اس عظیم درسگا ہ کے قیام کا سہرا سو برس پیچھے کراچی کی پارسی کمیو نٹی کے سرکردہ 'علم دوست مخیر فرد نادر شا ایڈلجی ڈنشا کے سر جاتا ہے -کراچی میں واقع این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے رواں سال یعنی2021 میں اپنے قیام کے 100 سال مکمل کیے ہیں، ملک کے اس اہم تعلیمی ادارے کو1921 میں قائم کیا گیا تھا۔ انجینئرنگ کے شعبے میں گریجویٹس کی تعلیم و تربیت کے لیے معروف این ای ڈی یونیورسٹی پاکستان کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔اس سے پہلے این ای ڈی یونیورسٹی کا نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ این ای ڈی یو ای ٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے انکشاف کیا کہ اس انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد 1921 میں پرنس آف ویلز کے دورے کے موقع پر رکھا گیا تھا۔ڈاکٹر حشمت لودھی نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل جیکسن نام کے ایک برطانوی افسر اس کالج کے قیام کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے۔
پروفیسر لودھی نے بتایا کہ اس تاریخی ادارے میں 540 سے زیادہ ماہر تعلیم لیکچرارز اور پروفیسرز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں 200 پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی 34 انڈرگریجویٹ، 50 سے زیادہ ماسٹرز اور 21 پی ایچ ڈی پروگرامز کی پیش کش کرتی ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ تعلیمی ادارہ بمبئی یونیورسٹی سے وابستہ تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد یہ حکومت سندھ کے دائرہ اختیار میں آگیا۔این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں اس وقت پانچ کلیات کے تحت اکیس شعبہ جات میں چھ ہز سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں سے ڈیڑھ ہزار کے قریب تعداد خواتین کی ہے۔اس ادارے کا قیام انیس سو بائیس میں عمل میں آیا جب پرنس آف ویلز کے کراچی کے دورے کے موقع پر کراچی کے شہریوں نے عطیات جمع کر کے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔اس وقت اس کا نام پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج تھا۔ یہ اس وقت صوبہ سندھ کا واحد انجینئرنگ کالج تھا۔
انیس سو چوبیس میں اس کا نام اس وقت کی معروف سماجی شخصیت نادر شاہ ادولجی ڈنشا کی پہلی برسی کے موقع پر ان کےخاندان کی جانب سے بہت خطیر رقم بطور امداد ملنے کے بعد اس کا نام نادر شاہ ادولجی ڈنشا انجینئرنگ کالج رکھ دیاگیا۔ اس وقت اس کالج کا الحاق بمبئی یونیورسٹی سے تھا۔انیسو سینتالیس میں قیامِ پاکستان کے بعد اس کا انتظام سندھ حکومت نے سنبھال لیا اور اس کا الحاق سندھ یونیورسٹی سے کر دیاگیا۔انیس سو اکاون میں جامعہ کراچی کے قیام کے بعد اس کا الحاق جامعہ کراچی سے کردیاگیا جو انیس سو ستتر تک جاری رہا۔ 1977 میں اسے باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دے دیاگیا۔اس یونیورسٹی میں کوئی گزشتہ بارہ برسوں سے اس بات بہت پر بہت زور دیا جا رہا ہے کہ تعلیمی سال کو مکمل کیا جائے اسی لیے جب کراچی شہر کے حالات کی وجہ سے جامعہ بند رہتی ہے تو اس کی کسر روز کی کلاسز کے اوقات میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور کبھی کبھی اتوار کے روز بھی تدریس کے عمل کو جاری رکھا جاتا ہے تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مطلوبہ کریڈٹ آور پورے کیے جا سکیں۔اس جامعہ میں داخل ہوتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کے اس کا نظم و نسق دوسری جامعات سے مختلف ہے۔یونیورسٹی کے کیمپس کی عمارتیں اور ماحول دیگر سرکاری جامعات کی نسبت زیادہ بہتر اور صاف ستھرا ہے۔
سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی زمینوں کے بڑے حصے کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری
رکھاسندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔یہ یونیورسٹی برطانوی حکومت کے قائم ہونے کے بعد اپنی جدید شکل میں آئی اور سنہ 1947ء میں حکومت سندھ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ سنہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد جیسے جیسے کراچی ترقی کرتا گیا اور پرانا 'سٹی کیمپس' بہت زیادہ پر ہجوم ہو گیا، سنہ 1975ء میں یونیورسٹی روڈ، کراچی پر اس کے موجودہ مقام پر ایک نیا 'مین کیمپس' تعمیر کیا گیا۔ آخر کار یکم مارچ 1977ء کو این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کو انجینئرنگ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کا نام اس کے محسن نادرشا ایڈولجی ڈنشا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں