روئے زمین پر انسانی قدموں کے آنے سے لیکر آج تک نا جانے کتنی تہذیبوں نے جنم لیا اور کچھ عروج پا کر فنا فی اللہ ہو گئیں لیکن کچھ تہزیبیں مٹ کر بھی زمانے کو اپنے انمٹ نقوش دے گئیں -ان تہذیبوں میں موریہ تہذیب بھی آج تک زندہ ہے -تو آئیے موریہ تہذیب کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں -موریہ سلطنت کا پایہ تخت پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) تھا، یہ بہت شاندار شہر تھا اور گنگا کے کنارے کنارے نو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی شہر پناہ میں 64 بڑے دروازے اور سینکڑوں چھوٹے دروازے تھے۔ مکان زیادہ تر لکڑیوں کے بنے ہوئے تھے اور چوں کہ آگ لگنے کا ڈررہتا تھا اس لئے آگ بجھانے کا بہت معقول انتظام تھا،خاص خاص سڑکوں پر پانی سے بھرے ہزاروں گھڑے ہر وقت رکھے رہتے تھے۔ ہر ایک گھر گرہست کو بھی اپنے اگر کوئی آدمی سڑک پر کیچڑ اور پانی جمع ہونے دیتا تھا تو اس پر جرمانہ کیاجاتا تھا۔ اگر ان قاعدوں کی پابندی ہوتی رہی ہو گی تو پاٹلی پتر یا دوسریے اور شہر یقینا بہت خوبصورت اور صاف ستھرے رہے ہوں گے۔پاٹلی پتر میں شہری انتظام کے لئے ایک میونسپل کونسل تھی۔ تمام شہری اس کونسل کے ممبروں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس میں 30 ممبر ہوتے تھے۔ ان میں سے پانچ پانچ ممبروں پر مشتمل چھ کمیٹیاں تشکیل کی جاتی تھیں۔ شہری صنعت و حرفت کی حوصلہ افزائی اور دیکھ ریکھ، مسافروں اور تیرتھ یاتریوں کے آرام اور حفاظت کے انتظامات، فوتگی اور پیدائش کے اندراجات اور دوسری چیزیوں کا انتظام انہیں کمیٹیوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔
ایک عجیب و غریب سامان تفریح بیلوں کی دوڑتھی۔ اس میں شرطیں لگائی جاتی تھیں۔ بادشاہ نہایت دلچسپی سے اس کا تماشا دیکھا کرتا تھا۔ اور بیلوں کو گاڑیوں میں جوت کر ڈوراتے تھے اور ان کے علاوہ گھوڑے بھی گاڑیوں میں جوت کر انھیں بھی دوڑاتے تھے۔ جب وہ شکار کے لیے شکار پر جاتا تھا تو اس کے ہم رکاب عورتوں کی فوج کا ایک دستہ ہوتا تھا۔ دوسرے ملکوں سے خریدی ہوئ یہ غلام عورتیں ہندی راجاؤں کے دربار کا ایک ضروری جزو ہوا کرتی تھیں۔ شاہی گذر دونوں جانب رسی بنی ہوتی تھی اور اس کے پار جانے کی سزا موت تھی شاہی شکار کے دستور کو چندرا گپتا کے پوتے اشوک نے 952 ق م میں موقوف کر دیا تھا۔
عام طور پر راجا محل میں زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتا تھا اور محل کے اندر عورتوں کی فوج اس کو گھیرے رہتی تھی۔ محل سے باہر صرف بھینٹ چڑھانے یا فوج کشی یا شکار کے موقعوں پر نکلا کرتا تھا۔ راجا اپنی سالگرہ میں نہایت تزک و احتشام سے اپنے سر کے بال دھوتا تھا۔ سالگرہ کے موقع پر بڑی عید منائی جاتی تھی اور اس موقع بڑے بڑے امرا سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بیش بہا نذرانے راجا کی خدمت میں پیش کریں۔ اس تزک و احتشام اور شان اور شوکت اور ہر قسم کی حفاظت کے باوجود راجا کبھی بھی سازشوں اور بغاوتوں سے بے خوف نہ ہوتا تھا۔ راجا قانون کے مطابق اپنی سلطنت کے تمام خشک و تر کا مالک تھا۔ لگان کے ساتھ آب پاشی کا محصول بھی عائد تھا۔ جس کی شرح پانچویں سے تیسرے حصہ پیداوار کے مابین تھی۔
بعض حالتوں میں دوسرے ابواب بھی زمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ دریا کے گھاٹوں پر بھی حکومتی کشتیاں ہوتی تھیں جن کا کرایا سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ شہر کے اندر پیدائش اور موت پر محصول لگا ہوا تھا۔ یہ بھی حکومتی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ جرمانہ کی رقم بھی معقول ہوتی تھی۔ مجرمین سے وصول کیے جاتے تھے۔ ان محصولات کے علاوہ خراج کی آمدنی بھی تھی جو ریاستوں سے وصول کی جاتی تھی۔ صفائی ستھرائی، آمدوخرچ، پانی کا انتظام، باغ باغیچے اور پبلک عمارتوں کی دیکھ ریکھ کا انتظام کرتی تھی۔انصاف کرنے کے لئے پنچایتیں اور اپیل سننے کے لئے عدالتیں قائم تھیں۔ قحط زدوں کی مدد کا خاص انتظام ہوتا تھا۔ سرکاری گودام کا آدھا غلہ قحط زدوں کی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھا جاتا تھا- مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجا کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔
۔یہ تھی اس موریہ سلطنت کی ایک جھلک جس کی آج سے 22 سو سال پہلے چانکیہ اور چندر گپت نے تنظیم کی تھی۔ پاٹلی پتر کی راج دھانی سے لے کر اس عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے شہروں اور ہزاروں قصبوں اور گاؤں تک سارے ملک میں زندگی رواں دواں اور چہل پہل سے بھرپور تھی۔ سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ ایک شاہراہ پاٹلی پتر سے شمال مغربی سرحد کو چلی گئی تھی۔ بہت سی نہریں تھیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک محکمہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ جہاز رانی کا شعبہ بھی تھا۔ جو بندرگاہوں، گھاٹوں، پلوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے والے متعدد جہازوں اور کشتیوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ جہاز سمندر پار چین اور برما تک جاتے تھے۔اس عظیم الشان سلطنت پر چندر گپت نے 24 سال تک حکومت کی۔ 296 قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں