ہمارے ہی معاشرے میں کچھ لوگوں کے مزاج میں ایسی بے چینی سی گردش کرتی رہتی ہے جسے کوئ نام نہیں دیا جا سکتا ہے -اور یہی بے چینی ان کو مستقل طور پر مضطرب رکھتی ہے -آج کے ماڈرن معاشرے نے اس بیماری کو ڈپریشن یا انگزائٹی کا نام دیا ہے اس بیماری کی بنیا د انسان کے ناقابل حل مسائل سے جڑا ہوتا ہے -لیکن کبھی 'کبھی انسان اپنے اوپر بلاوجہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اپنے زہن پر اس طر ح سوار کر لیتا جس سے وہ اس نادیدہ مرض کے شکنجے میں آجاتا ہے ۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی طبیعت جینز کے ذریعے وراثت میں بھی مل سکتی ہے۔ تاہم وہ لوگ بھی جو قدرتی طور پر ہر وقت پریشان نہ رہتے ہوں اگر ان پر بھی مستقل دباو پڑتا رہے تو وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھار گھبراہٹ کی وجہ بہت واضح ہوتی ہے اور جب مسئلہ حل ہوجائے تو گھبراہٹ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کچھ واقعات اور حالات اتنے تکلیف دہ اور خوفناک ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ واقعات کے ختم ہونے کے طویل عرصے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یہ عام طور پر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جن میں انسان کی جان کو خطرہ ہو۔ مثلاً کار یا ٹرین کے حادثات اور آگ وغیرہ۔ ان واقعات میں شامل افراد مہینوں یا سالوں تک گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہ سکتے ہیں ۔ یہ علامات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں پائی جاتی ہیں۔ انگزائٹی یا گھبراہٹ کی چند نمایاں علامات ،دل کی دھڑکن محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا،پٹھوں میں کھنچاو¿ اور درد ہونا،سانس کا تیزی سے چلنا،سر چکرانا،بے ہوش ہو جانے کا ڈر ہونا،بدہضمی، بری خبر، ڈرامہ فلم سے گھبراہٹ ہونا ، خاموش رہنا یا بلا ضرورت گفتگو کرنا، ہر وقت پریشانی کا احساس،تھکن کا احساس،توجہ مرکوز نہ کرپانا،چڑچڑے پن کا احساس،نیند کے مسائل۔
گھبراہٹ کا شکار افراد ان علامات کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہو گئی ہے، گھبراہٹ سے ان علامات میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے غیر متوقع اچانک دورے پینک (Panic)کہلاتے ہیں۔ اکثر گھبراہٹ اور پینک کے ساتھ ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے بھی گھبراہٹ ہوسکتی ہے اکثر بچے کبھی نہ کبھی کسی وجہ سے ڈر جاتے ہیں۔ نشوونما کے دوران یہ معمول کی بات ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہوجائیں تو بچے بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ بہت سے بچے اندھیرے یا فرضی وجود (جن بھوتوں)سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف عام طور پر بڑے ہونے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور بچوں کی زندگی یا ان کی نشوونما کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اسکول کے پہلے دن جیسے اہم واقعات کے بارے میں خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔انگزائٹی اور ڈیپریشن کے نفسیاتی علاج موجود ہیں -
گر روحانی اور سوشل علاج سے بہتر اور موثر کوئی علاج نہیں۔ ہم خیال اور شفیق دوسروں اور رشتے داروں کی صحبت اختیار کریں۔ گپ شپ اور مثبت گفتگو کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے سے بچیں۔ نفسیاتی امراض کا بہترین ٹوٹکہ شکر گزاری ہے۔ جو پاس ہے اس پر راضی ہو جائیں اور جو چھن گیا اس پر صبر کریں اور جو نہیں مل سکا اس کے لئے بے چین اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا واحد علاج صبر اور شکر ہے۔ رب سے تعلق جوڑنے سے بڑا نسخہ اور علاج کوئی نہیں۔ اور رب سے تعلق جوڑنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ ہر مشکل مصیبت پریشانی پر دل سے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں اور ہر نعمت کامیابی اور خوشی پر بھی دل سے رب کا شکر ادا کرنا شروع کر دیں۔یاد رکھیں تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا محور دل اور دماغ ہے۔ دل اور دماغ کو پرسکون کر لیں تمام قلبی روحانی جسمانی نفسیاتی مسائل اور بیماریوں پر قابو پا لیں گے-
۔ اور یہ بھی یاد رکھیں موت کے علاوہ کوئی مصیبت مشکل امتحان رب کی طرف سے نہیں بلکہ بندے کی اپنی کوتاہیوں غلطیوں اور خلاف سنت زندگی گزارنے کے سبب ہے۔سنت کے مطابق شب و روز گزارا جائے تو نہ بلڈ پریشر شوگر انگزائٹی ڈیپریشن اور دیگر امراض لاحق ہوں گے اور نہ ادویات ڈاکٹر ہسپتال کی ضرورت پیش آ ئے گی۔ جسمانی ورزش کم اور وقت پر صحتمند غذا کھانا سونا صحت کی ضمانت ہے۔پہلے زمانے کے بزرگ سادگی اور سنت کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور طویل صحتمند زندگی گزار کر مرتے تھے اور آج نسلیں زندگی نہیں گزار رہیں بلکہ زندگی انہیں گھسیٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کا طرز زندگی دیکھو جوانی میں بیمار نظر آتے ہیں۔ منشیات سگریٹ نوشی رات بھر جاگنا باہر سے آرڈر پر غیر صحتمند غذا کھانا ، بے صبری عدم برداشت نا شکری اور محبت کی بجائے شارٹ کٹ تلاش کرنا جیسے انداز زندگی نے جوانوں کو مریض بنا دیا ہے۔
بچے اور نوجوان بھی انگزائٹی ڈیپریشن اور فوبیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ صبر اور شکر سے مظبوط تعلّق بھی اضطراب دور کرنے کا بہترین زریعہ ہیں انسان اللہ تعالیٰ سے انسان جتنی دوری اختیار کرتا ہے اور اپنی کوششوں پر بھروسہ کرتا ہے اتنا زیادہ بے چینی کا اوراضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو۔ بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں