اپنی جان نذر کروں
اپنی وفا پیش کروں
اعزازِ نشان حیدر حاصل کرنے والے پائلٹ آفیسر۔ کراچی میں پیدا ہوئے۔ منہاس راجپوت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 1968ء میں سینٹ پیٹرک اسکول کراچی سے سینئر کیمبرج کیا۔ خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی بری بحری اور فضائی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے بھی اپنا آئیڈیل فوجی زندگی کو بنایا۔ اور اپنے ماموں ونگ کمانڈر سعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر فضائیہ کا انتخاب کیا۔ تربیت کے لیے پہلے کوہاٹ اور پھر پاکستان ائیر فورس اکیڈیمی رسالپور بھیجے گئے۔ فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے انگریزی، ائیر فورس لا، ملٹری ہسٹری، الیکڑونکس، موسمیات، جہاز رانی، ہوائی حرکیات وغیرہ میں بی۔ ایس۔ سی کیا۔ بعد ازاں تربیت کے لیے کراچی بھیجے گئے۔ اور اگست 1971ء میں پائلٹ آفیسر بنے۔20 اگست 1971ء کو 11 بجے کے قریب پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنے T-33 جیٹ ٹرینر پراپنی دوسری سولو فلائٹ کیلئے تیار تھے۔ انہوں نے طیارے کا انجن سٹارٹ کیا اور تمام آلات کو چیک کیا۔ گراؤنڈ سٹاف نے انہیں اُڑان بھرنے کا اشارہ دیتے ہوئے سلیوٹ کیا کون جانتا تھا کہ یہ بہادر جنگجو کو ملنے والی آخری سلامی تھی۔ راشد منہاس نے اپنے طیارہ ابھی رن وے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کا بنگالی فلائٹ انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے ٹیکسی وے پر آ کر انہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔ راشد منہاس نے کسی انسٹرکشن کے خیال سے طیارہ روک دیا۔ مطیع الرحمن انسٹرکٹر اچانک اچھل کر سیٹ پرآن بیٹھا۔ طیارے نے اُڑان بھری اور اس کا رُخ بھارت کی جانب ہو گیا۔
ا س کے تھوڑی دیر کے بعد راشد منہاس نے مسرور کنٹرول ٹاور کو آگاہ کیا کہ ان کے جہاز کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔فلائنگ آفیسر راشد منہاس ۲۰ اگست ۱۹۷۱ کو معمول کے مطابق ٹی ۳۳ ٹرینر جیٹ کو اڑانے والے تھے کہ ان کا بنگالی انسٹرکٹر فلائٹ لفٹینٹ مطیع الرحمان زبردستی ان کے جہاز میں سوار ہوگیا۔
طیارے میں سوار ہوتے ہی غدار وطن نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ تم میرے اہل خانہ کو لے کر بھارتی ہائی کمیشن چلے جاو میں جودھپور جارہا ہوں۔ راشد منہاس نے فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو مطلع کیا ۔ مطیع الرحمان نے راشد مہناس کو ضرب لگائی اور کلوروفارم سونگھا دیا۔غدار کے پاس کچھ خفیہ دستاویزات تھیں جو وہ بھارت لے کر جانا چاہتا-گیارہ بج کر ا کتیس منٹ پر طیارے کا رخ بھارت کی جانب تھا تاہم راشد منہاس نے ہوش میں آنے کے بعد گیارہ بج کر تینتس منٹ پر اطلاع دی کہ مجھے طیارے سمیت اغوا کیا جارہا ہے۔اس کے بعد طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اب راشد منہاس کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔جوان سال پائلٹ نے جب یہ دیکھا کہ ہندوستانی سرحد صرف ۳۲ میل دور رہ گئ ہے تو انہوں نے جہازکا رخ زمین کی طرف کردیا۔یوں پاکستان کے شاہین نے اپنی جان قربان کرکے غدار وطن اور ہندوستان کے تمام ناپاک ارادے خاک میں ملادئے۔
۲۱ اگست کو راشد منہاس کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا یہ کم سن مرد مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا اورآج قوم کے اس بیٹے کا ۲۱ اگست یوم شہادت منایا جاتا ہے۔۔پاکستان ائیر فورس کے شاہین راشد منہاس کو نشان حیدر سے نوازا گیا وہ اب تک کہ سب کم عمر ترین شہید ہیں جن کو یہ اعزاز ملا۔۲۰ اگست ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جب قوم کے شاہین نے اپنی جان اس وطن پر وار دی لیکن اس ملک کی سالمیت پر حرف نہیں آنے دیا۔راشد منہاس نے اپنی ڈائری میں یہ رقم کیا تھا کہ کسی شخص کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوا کہ اپنی جان ملک کے لئے قربان کردینا اور انہوں نے یہ ہی کردکھایا۔اللہ تعالی شہید فلائنگ آفیسر راشد منہاس کے درجات بلند کرے ۔قومی ہیرو راشد منہاس شہید کی بہادری اورعظیم قربانی کے یوم شہادت دن پر پوری قوم پاکستان کے اِس بہادربیٹے کو سلام ِعقیدت پیش کرتی ہے۔
17 فروری 1951ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس دوران تعلیم ہی انتہائی محنتی اور ہوابازی میں دلچسپی رکھتے تھے۔راشد منہاس نے امتیازی حیثیت سے (اے لیول) کا امتحان پاس کیا اور1971 میں پاک فضائیہ میں بحیثیت جی ڈی پائلٹ کمیشن حاصل کیا، جبکہ ابتدائی تربیت کے بعد بحیثیت پائلٹ آفیسر لڑاکا تربیت اور کنورژن کیلئے مسرورایئر بیس بھیجا گیا۔۱۹۷۱ میں راشد منہاس نے بطور جنرل ڈیوٹی پائلٹ گریجوٹ کیا اور انکی پوسٹنگ پی اے ایف بیس مسرور میں ہوگئ۔اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال تھی جب انہوں نے لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت کا آغاز کیا۔وہ کوئی عام نوجوان نہیں تھے بہت ذہین اور فطین تھے۔مطالعے کے شوقین تھے جس میں انگریزی جغرافیہ موسمیات اور تاریخ ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔اور وہ کم سنی میں پاکستان کی عسکری تاریخ کا زندہء جاوید ہیرو بن گئے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
''نشان ِحیدر'' پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور اس کے علاوہ اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں