قیام پاکستان کے بعد میں نے جس سماج میں آنکھ کھولی وہ صدیوں کا روایات کاپابند معاشرہ تھا -ان رسومات میں ایک روائت یہ بھی تھی کہ گھر میں آنے والے مہمان کی پان سے تواضع کرنا اگر گھر کی بزرگ خاتون نے مہمان کی عمر چھوٹی ہوتی تو بزرگ خاتون سے کھڑے ہو کر ان سے پان با ادب طریقے سے لیتا اور پھر جھک کر آداب بجا لاتا جس کے جواب میں بزر گ خاتون سے دعائیں لیتا -اورآنےوالا مہمان بزرگ ہوتا تو اس کے لئے گھر کا کوئ بچہ یا بڑا تھالی میں سلیقہ سے رکھی گئ گلوری پیش کرتا -پاندا ن ہر گھر کی تہذیبی روائت کا لازمی حصّہ ہوا کرتا تھا جو گھر کی سب سے بزرگ خاتون کی کسٹڈی میں رہتا تھا -گھر کے کسی طاق میں کتھّے اور چونے کی ڈھکی ہوئ کلہیاں ہمہ وقت رہا کرتی تھیں -تاکہ پاندان کو محفوظ اسٹاک میں کمی نا ہونے پائے -گھر میں کنواری لڑکیاں پان نہیں کھا سکتی تھی لیکن بیاہی کے کھانا لازم تھا تاکہ ان کے شوہروں کی نظروں میں پان کا رنگ محبّت کے دئے جلائے رکھے
گلوری-گلوری برصغیر میں ایک خاص وضع پر لپٹے ہوئے پان کو کہا جاتا ہے جو تقسیم ہند سے قبل نوابوں اور رؤسا کے یہاں انتہائی مقبول، ہندوستانی ثقافت کا اہم جز اور ضیافت و وضعداری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ۔ گلوری اس وقت بھی رائج ہے، گلوری پیش کرتے وقت عموماً اس پر کسا ہوا کھوپرا اور لونگ کی کیلیں یا لکڑی کا خلال لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اہتمام اور احتشام اب مفقود ہے جو شہنشاہوں، رؤسا اور عمائدین کے یہاں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کی نفاست طبع اور لطافت مزاج نے پان تیار کرنے، پان کے اجزائے ترکیبی میں ذائقہ پیدا کرنے اور پان بنانے کو فن کے درجہ تک پہنچا دیا تھا مشرقی معاشرت میں گلوری پیش کرنا آداب ضیافت میں شامل تھا، اگر کسی مہمان کی گلوری سے تواضع نہیں کی جاتی تو میزبان کے اس عمل کو توہین کے مترادف سمجھا جاتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں پانوں اور گلوریوں کی خصوصی اہمیت تھی پورے ہندوستان میں یہ ایک تہذیب کی علامت تھا بلکہ کئی جگہ پہ ابھی بھی ہے- کچھ کہتے ہیں کہ اول اول کسی بادشاہ کو اس کے شاہی طبیب نے علاج کے طور پر تجویز کیا تھا- کتھا، چونا اور چھالیہ اس کے بنیادی اجزاء تھے اور ہیں- پھر اس میں انواع اقسام کے تمباکو اور قوام شامل ہوتے چلے گئے-
لڑکیوں کےجہیز میں پاندان سب سے اہم چیز سمجھی جاتی تھی، دلہن کو دو طرح کے پاندان دیے جاتے۔ ایک چاندی کا مرصع پاندان اور دوسرا عمومی استعمال کے لیے تانبے کا قلعی شدہ پاندان۔مغل شاہی حکومتوں کے دربار میں پان اور عطر تقسیم کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں انگریز وائسراؤں کی لاج میں مہمان کی پان اور عطر سے ضیافت کی جاتی تھی۔ جس سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بھی مسلمان بادشاہوں کی اس قدیم روایات کو باقی رکھا-گلوری کی روائت پاندان اور خاصدان کی کہانی-پان کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ہندو مائتھالوجی میں بیان کیا گیا ہے کرشنا جی پان کھاتے تھے، ہزاروں برس سے حکیم اس کو بطور دوا بھی استعمال کرواتے تھے ہندو مذہبی روایات میں بھی پان کا بہت دخل ہے۔ لونگ، الائچی ، کھوپرہ اورسونف بہت سی بیماریوں جب سے ہندوستان می نوابوں، مہاراجوں اور راج واڑوں کا دورشروع ہوا غالباً اسی وقت سے یہاں پان کھانے کا رواج ملتاہے، لکھنو اور حیدرآباد کی تہذیبی ثقافت میں پان کو ہمیشہ کلیدی حیثیت حاصل رہی ، اس زمانے میں پان دان جہیز میں دینا لازمی ہوا کرتا۔ پاندان کے ساتھ خاصدان ،اگلدان ،پان کی ڈبیہ یا تھالی بھی دی جاتی جبکہ پان کھانے کے آداب بھی ہوا کرتے تھے-
گلوری کے لوازمات میں خاصدان، پاندان، اگالدان، گلوری دان، پیک دان، سروتا، چنگیر، پن کٹی وغیرہ شامل تھے۔ دفتر یا سفر میں لے جانے کے لیے چاندی کی منقش ڈبیا کا استعمال عام تھا۔ مغل سلاطین اور ان کا خاندان گلوری کے انتہائی شائق تھے۔ قلعہ معلی میں گلوری عموماً ڈیڑھ پان کی بنائی جاتی اور لپیٹ کر اس میں سونے، چاندی، لوہے یا لونگ کی کیل لگا دی جاتی تھی -سچی بات تو یہ ہے کہ پان اور اس کے مروجہ ضروری مصالحہ جات کے خواص اور افعال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تمباکو کے پان کا استعمال منہ کے امراض کے لئے نہایت مفید ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ جو چیزیں نفع بخش ہوں ان کو مضر کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ادویات کا استعمال مخصوص اوقات میں ہوتا ہے غیر اوقات میں ان کا استعمال کچھ ٹھیک نہیں۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ اگر پان کو درجہ اعتدال پر استعمال کیا جائے تو انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کا استعمال نہایت ہی فائدہ بخش ہے۔
بالخصوص , درد داندان, گندہ دہنی اور مسوڑھوں کے لئے نہایت نافع ہے- اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں مثلاً ذائقہ کا درست ہونا, زبان اور مسوڑھوں کے زخم مندمل ہونا, حلق کی خرابی سے محفوظ رہنا, کھانا کھانے کے بعد منھ کو صاف کرنے اور اس کی تمام کثافت کو دور کرنا وغیرہ- پان کے بیڑے کے استعمال سے طبعیت کو فرحت ملتی ہے اور خصوصاً موسم سرما میں گرمی پہنچاتا ہے۔نامرغوب چیز کے استعمال کے بعد کھانے سے کراہت دفع ہوجاتی ہے اور منہ صاف ہوجاتا ہے۔ کھانے کے بعد پان کا استعمال ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کھانے کے ساتھ اکثر نامعلوم طور پر کچھ جراثیم پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ پان کا عرق اور دوسرے اجزاء ان جراثیم کو مار ڈالتے ہیں اور اس طرح ہم بہت سی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ پان کے کھانے کے بعد پیدا ہونے والی سرخی کی وجہ سے چہرے پر خوبصورتی بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے لوگ (خصوصاً صنف نازک) اس کو افزائش جمال کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی پان ہی ایک ایسی مہذب اور کم خرچ تواضح ہے جسے غریب سے غریب پیش کر کے اپنے جذبات محبت ایک دوسرے پر آشکار کرسکتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں