تاریخ گواہ ہے کہ برّصغیر کی زمین ہند پر سر زمین حجاز سے آنے والے ولیوں نے بڑی مشقّت اور جانفشانی سے یہاں اسلام کے پھیلاو میں اپنا کردار ادا کیا ان ولیوں میں ایک بلند پایہ ولی حضرت سید شمس الدین سبزواری بھی ہیں جنکا مزار ملتان میں ہے آپکا شجرہ نسب چند پشتوں کے بعد مولا امام جعفرصادق ع سے جاکر ملتا ہے آپ صوبہ خراسان کی بستی سبزوار میں 560ہجری میں پیدا ہوئے آپ کے والد سید صلاح الدین گرم کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے سید صلاح الدین عالم فاضل اور دیندار مبلغ تھے فاطمیوں کے نقیب خاموشی کے ساتھ عالم اسلام میں پھیلائے گئے سید صلاح الدین کا خاندان کس داعی کے ساتھ سبزوار آیا پتہ نہیں چلتا سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کا نام شمس الدین رکھا آپکا شجرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے مولا امام جعفر صادق ع _ امام ذادہ اسماعیل _سید محمد عریضی _سید زید(اسماعیل ثانی) _سید معصوم شاہ _سید غالب الدین _سید عبدالمجید _مستنصرباللہ_سید محمد ہادی_محمد ہاشم(مدفون یمن) سید محمود سبزواری(مدفون لاہور)_سید محب مشتاق_سید خالد الدین_سید صلاح الدین _شمس الدین سبزواری(مدفون ملتان)مناسب وقت پر شمس الدین کی تعلیم و تربیت کی فارسی و عربی میں سمجھ بوجھ کے بعد قرآن حدیث تفسیر فقہ کی طرف لائے
یوں ایمانیات عبادات معملات کی بنیادیں مضبوط کرکے شیعیت کے ساتھ طریقت کو شامل کیا تذکرتہ اولیاء فرید الدین عطار میں ہے کہ سید صلاح الدین ایرانی صوفیائے کرام کی پیدا کردہ روحانی ہوا و فضا میں سانس لے رہے تھے اندازہ ہے کہ سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کو تعلیمات چہاردہ معصومین ع سے روشناس کرایا کیونکہ آخری فاطمی خلفاء اثنا عشری مسلک رکھتے تھےبعض مورخین شاہ شمس سبزواری کو شاہ شمس اسماعیلی کہتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت اسماعیل بن امام جعفرصادق ع کی اولاد سے ہیں نہ کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کی درگاہ عالیہ میں امام بارگاہ موجود ہے جہاں قدیم عرصہ سے مجالس امام حسین ع کا اہتمام ہوتا ہے ہر جمعرات کو ہفتہ وار مجالس عزا برپا ہوتی ہیں بارہ اماموں کے حوالے سے دیگر تقاریب کا انقعاد ہوتا ہے-
یہ ہی دستور درگار بی بی پاک دامناں درگاہ امام بری درگا شہباز لعل قلندر پر نافذ العمل ہے بعض مورخین نے شاہ شمس تبریزی کو کو ملتان کی سر زمین پر عزاداری کا آغاز کرنے والا درج کیا ہے سید صلاح الدین کا انتقال 665ہجری میں ہوا اس دور میں عالم اسلام مغلوں کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے زلزلہ میں آگیا تھا سید شمس الدین سبزوار سے نکلے 666ہجری میں ملتان میں وارد ہوئے متاخرین تذکرہ نگاروں نے حکایت اولیا سنائی کہتے ہیں کہ بہاؤالدین زکریا نے آپ کی خبر پائی تو دودھ کا پیالہ لباب بھیجا مطلب یہ تھا یہاں اہل اللہ کی بھیڑ بھاڑ ہے تمہاری گنجائش نہیں ہے حضرت شاہ شمس الدین نے پیالہ دودھ پر گلاب کا پھول تیرا دیا اور اپنی گنجائش کا جواز دکھلایا حضرت بہاؤالدین زکریا کے پوتے سے شاہ شمس کے گہرے روابط تھے خطاب رکن الدین والعالم شاہ شمس کا عطا کردہ ہے جو بعد ازاں شاہ رکن عالم بن گیا تذکرہ نگاروں نے حکایات اولیاء میں ایک اور اضافہ کیا ہے سید شمس الدین نے جلادوں کو اپنی کھال اتار کر دے دی
اب کوئی انہیں اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا تھا بھوک نے ستایا تو لب دریا آئے مچھلیاں ابھرنے لگیں ایک مچھلی پکڑی مگر ملتانیوں نے اسے بھوننے سے انکار کر دیا آپ نے سورج کو حکم دیا تبش بکن سورج سوا نیزے پر اتر آیا اور مچھلی بھون دی جسے آپ نے تناول فرمایا اسی وجہ سے ملتانی آپ کو تپ ریز(گرمی دینے والا)کہنے لگے بعد میں تپ ریز تت ریز تب ریز اور تبریز ہوا یوں شمس الدین سبزواری شمس تبریزی ہوئے ملتان کی شدید گرمی اسی وجہ سے ہے ورنہ ملتان کی آب و ہوا خوشگوار معتدل تھی نو تعمیر سہ دری کی پیشانی پر آئمہ اہل بیت اطہار ع کے اسم گرامی لکھے ہوئے ہیں بورڈ پر لکھا ہے "کربلا دربار شاہ شمس تبریز" مزار شریف کے چبوترے پر ایک چھوٹا سے دروازہ ہے بورڈ پر لکھا ہے حضرت شمس الدین ولی سبزواری جبکہ مزار شریف کے اندر لکھا ہوا ہے حضرت شاہ شمس تبریز یہ تضاد عوام کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے
بعض مورخین نے اسی وجہ سے شمس الدین سبزواری کو ہی شمس الدین تبریزی مانا ہے جیسا کہ تاریخ انوار السادات المعروف گلستان فاطمہ میں لکھا ہے کہ مخدوم سید شمس الدین تبریزی کی ولادت ماہ شعبان بقول ماہ رجب بروز جمعہ 560 ہجری میں شہر سبزوار میں ہوئی علم فضل و تقوی اور طہارت میں بے عدیل صاحب کرامت ہوئے جب آپ اپنے والد صلاح الدین کے ہمراہ کشمیر و تبعت بغرض دعوت اسلام تشریف لے گئے تو وہاں شمس الدین عراقی کہلائےاور جب عرصہ تک تبریز میں مقیم رہے تو تبریزی کہلائے 675 ہجری میں وفات پائی مزار ملت میں ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ اس بات کا تاریخی شواہد کے لحاظ سے حقیت کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ شمس الدین سبزواری کا کسی طور پر بھی تبریز سے کوئی واسطہ نہیں ہے تبریز کہلانے کی وجہ وہ صرف تپ ریز ہے جو بعد میں تبریز ہو گیا جبکہ شمس تبریزی مولانا روم کے استاد تھے جنکا مزار قونیہ میں آج بھی موجود ہے اسی طرح شمس الدین عراقی اور ہیں جنکا مزار کشمیر میں ہے انکا انتقال 924ہجری میں ہوا سید شمس الدین نے گیارہ سال ملتان میں تبلیغ کی اور 677ہجری کو ملتان میں وفات پائی حجرہ کے قریب سپرد خاک کیا گیا قبر پر مقبرہ آپ کے پوتے سید صدر الدین نے تعمیر کرایا سیٹھ مہر دین نے عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا - نماز پنجگانہ نماز عید بقر فطر پر مکمل طور پر پابندی تھی انگریزوں کے ملتان پر قبضے کے بعد 1850ء میں مقبرہ و مسجد مسلمانوں کو دے دی گئ آپ کے صرف ایک ہی فرزند صاحب اولاد ہوئے جنکا نام نصرالدین ہے جو لاہور میں دفن ہیں -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں