جمعہ، 8 مارچ، 2024

حضرت بل 'درگا ہ سری نگر کشمیر

 

حضرت بل 'درگا ہ سری نگر کشمیر-  ایک  علاقہ ہے جو شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر دور ہے ۔

حضرت بَل کا مطلب ہے مقدس جگہ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک مقدس جگہ ہے، بلکہ جموں و کشمیر بھر میں سَب سے مقدس جگہ تصور کی جاتی ہے۔ برفپوش پربتوں اور ڈل جھیل کے نیلم رنگ پانیوں کے ماحول میں سفید رنگ کی درگاہ حضرت بَل میں مُوئے مبارک موجود ہے، یعنی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک۔روایات کے مطابق مدینہ منورہ میں سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے سید عبداللہ 1635 میں ہندوستان میں حیدرآباد کے قریب بیجاپور منتقل ہوئے۔ وہ مُوئے مبارک اپنے ہمراہ لائے تھے۔ جب سید عبداللہ کا وصال ہو گیا تو مُوئے مبارک اُن کے صاحبزادے سید حامد کو ورثہ میں ملا۔علاقہ میں مغل یلغار کے دوران سید حامد سے تمام اثاثے چِھین لیے گئے۔ سید حامد کو جب اندازہ ہو گیا کہ اب وہ مُوئے مبارک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہے اور اُن سے مُوئے مبارک چھین لیا جائے گا تو اُنہیں خواب یا استخارہ میں اشارہ ملا کہ موئے مبارک کو حکامِ سلطنت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ ایک اور ایمانت دار شخصیت خواجہ نُورالدین عیشائی کو دے دیا جائے، سلاطین چاہے مسلم ہی کیوں نہ ہوں وہ بے ادبی سے باز نہیں آتے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔جب مغل بادشاہ اورنگزیب کو مُوئے مبارک کی خبر ملی تو اُس نے مُوئے مبارک کو نورالدین عیشائی سے زبردستی چھین کر درگاہ اجمیر بھجوا دیا اور نورالدین عیشائی کو غیرسرکاری طور پر تبرکات رکھنے کے جرم میں دہلی میں قید کروا دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ اورنگزیب کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہو گیا، یہ الگ سے کرامت ہے۔ اُس نے حکم دیا کہ موئے مبارک نورالدین عیشائی کو واپس کر کے اُنہیں کشمیر بھجوا دیا جائے۔ مگر اُس وقت تک جیل میں نورالدین عیشائی کا وصال ہو چکا تھا۔ چناچہ موئے مبارک اُن کے اہلِ خاندان کو مل گیا اور وہ مُوئے مبارک بمع جسدِ نورالدین عیشائی سری نگر آ گئے۔

سَن 1700 میں نورالدین عیشائی کی صاحبزادی عنایت بیگم نے ڈل جھیل کے مغربی کناروں پر خواجہ نورالدین عیشائی کا مزار بنوایا اور اُس کے ایک حصے میں مُوئے مبارک کو محفوظ کر دیا۔ یہ مزار یا درگاہ حضرت بَل کہلائی۔ تب سے آج تک خواجہ نورالدین عیشائی کا خاندان اِس درگاہ کی حفاظت پر معمور ہے۔ وہ گدی نشین نہیں، محض امانت دار محافظین ہیں۔کچھ دہائیاں قبل 26 دسمبر 1963 کو موئے مبارک چُرا لیا گیا۔ پوری ریاست میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مظاہرے اتنے بڑھ گئے کہ 31 دسمبر 1963 کو قومی ریڈیو پر وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے قوم کو مُوئے مبارک کی گمشدگی کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا اور ڈھونڈنے کا وعدہ کیا۔ حالات سے اندازہ ہوا کہ اہلِ ہندوستان کے مسلمان مقدس چیزوں کے بارے میں کتنے گہرے احساسات رکھتے ہیں۔ چند دن بعد، 4 جنوری 1964 کو مُوئے مبارک بازیاب ہو گیا-اس علاقے میں ابتدائی آبادیاں ڈل جھیل کے کنارے آباد تھیں اور اس علاقے کی زیادہ تر آبادی ہنگی (ماہی گیر) کی ہے۔ یہ علاقہ حضرت بل کے مزار کی تعمیر کے بعد مشہور ہوا جہاں ہر سال لاکھوں لوگ آتے ہیں کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں اسلامی پیغمبر محمد سے متعلق بہت سے آثار ہیں۔اردو میں لفظ حضرت احترا م کی طرف مشیر ہے جبکہ بل کے معنی مقام کے ہیں۔ لہٰذا لفظ حضرت بل کا مطلب ہے وہ جگہ جو لوگوں میں بہت محترم ہے۔ ڈل جھیل اور اس کے آس پاس کی گھریلو کشتیوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا مشہور سیاحتی مقام بن گیا ہے ۔

 یہاں رہنے والوں کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار سیاحت پر ہے۔ شیخ محمد عبداللہ کی قبر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے کا پوسٹل کوڈ 190006 -حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے. حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے.آپ کے ابتدائی حالات گوشہ اخفاء میں ہے لیکن اس سے آپ کی عظمت, شان و شوکت پر کوئی اثر نہیں پڑتا,میری دسترس میں ایسی کوئی تاریخ نہیں جس میں آپ کی بتدائی زندگی کا حال درج ہو.آپ کا ذکر کشمیر کی ہر قدیم تاریخ میں ملتا ہے.آپ کا شجرۂ نسب امام سیدالساجدین زین العابدین علیہ السلام سے جاملتا ہے.)سید تاج الدین بنِ الامیر سید حسن بنِ سید محمد الثالث بنِ سید علی بنِ سید یوسف بنِ سید محب بنِ سید محمد الثانی بنِ سید جعفر بنِ سید عبداللہ بنِ سید سید محمد الاول بنِ سید علی بنِ سید حسن المحدث بنِ حُسین الاصغر بنِ امام زین العابدینؑ بنِ امام حُسینؑ(

آپ کی ولادت 720ھ کے قریب شہرِ ہمدان میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ سے ہی حاصل کی جیسا کہ اس زمانہ میں دستور تھا کُتب اور اساتذہ سے پہلے گھر کے اہلِ خانہ نمونہ عمل تھے کیونکہ ایران کے مشہور شہر ہمدان میں آپ کا خانوادہ نہ صرف سیادت، شرافت، علم اور عمل کے لیے مشہور تھا بلکہ سیاست و شجاعت بھی اس خاندان کو ورثہ میں ملی تھی.حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ اور حضرت میر سید علی الحسینی ہمدانیؒ سے قبل اڑھائی سو سال پہلے آقائے خاقانیؒ نے آپ کے خانوادہ کی تمجید و توصیف میں کہا تھاحضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی حیرت انگیز فعالیت اور ان کے کارنامے دیکھ کر اس بارے میں شبہ نہیں رہتا کہ آپ تمام علمی مدارج طے کرکے ایک بلند مقام پر فا-----کشمیری موٴرخ غلام نبی گوہر نے اس درگاہ کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سترہویں صدی میں جب ہندوستان پر اورنگزیب کی حکومت تھی، اس دوران بیجاپور دکن سے تعلق رکھنے والا ایک تاجر پیغمبرِ اسلام سے منسوب ’موئے مقدس‘ کشمیر لایا اور دعویٰ کیا کہ انھیں یہ ایک عرب تاجر نے دیا تھا۔موئے مقدس کے بارے میں یہاں کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی داڑھی کا ایک بال ہے۔ اس تبرک کو پہلے سرینگر کی ایک چھوٹی درگاہ خانقاہ نقشبندیہ میں رکھا گیا لیکن کشمیر کے کونے کونے سے لوگ وہاں پہنچنے لگے جس کے سبب جگہ کم پڑنے لگی۔غلام نبی گوہر لکھتے ہیں: ’اُن دنوں کشمیر پر افغان حکومت تھی۔ افغان حکمرانوں نے سرینگر کے مغرب میں جھیل ڈل کے کنارے سرسبز زمین کا وسیع رقبہ نئی درگاہ کے لیے وقف کر دیا اور وہاں درگاہ تعمیر کی گئی جہاں موئے مقدس کو منتقل کیا گیا۔‘

1 تبصرہ:

  1. شاہجہاں 1044 ھجری مطابق 1634 عیسوی میں کشمیر سیر کے لئے آیا صادق خان بھی بادشاہ کے ساتھ تھا بادشاہ نے اس باغ کی ایک عمارت میں نماز ادا کی اور کہا جاتا ہے کہ صادق خان سے کہا کہ یہ مکان عیش و آرام کے لئے نہیں بلکہ عبادتِ خدا کے لئے زیادہ موزوں ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر