ہفتہ، 16 مارچ، 2024

فارسی شاعر فردوسی


 ویسے تو شاعری دنیا کی بے شمار زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں-ہر شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں -لیکن فردوسی نے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کو اپنی شاعری میں عکس بند کیا اس کی نظیر کم ہی کم شعراء میں نظر آتی ہے -ایران کے مشہور  حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔

 فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ان کے شاعرانہ  مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے  ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں  شاہنامے کے بعض اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔  اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔

 وہ  ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا،۔ )نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شروع کیا تھا۔  جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔محمود غزنوی میں فردوسی کی آمد-فردوسی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی لازوال تخلیق سے نہ صرف فارسی زبان بلکہ پوری فارسی ثقافت اور تاریخ کو امر کر دیا۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ایرانی عوام کے ساتھ ان کے جذبہ صادق کی جھلک ملتی ہے بلکہ انھیں بھی اپنی کام کی اہمیت کا بخوبی علم تھا کہ وہ کس قد اہم دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔

چنانچہ خود فردوسی نے کہا کہ کہ انھوں نے شاہ نامہ کی تصنیف میں بہت رنج و مصیبت اٹھائی لیکن 30 سالوں کی محنت کے نتیجے میں انھوں نے اپنی فارسی میں عجم کو زندہ کر دیا۔یہ شخص سنہ ۹۴۰عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گذر گئے۔  فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نےا قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کار عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی،۔ فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے

اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا    سلطان نے    فردوسی  ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔ لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاری شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر محمود غزنوی کو اپنی کوتاہی کا احساس ہوا تو اس نے دوبارہ پوری ۶۰ ہزار اشرفیاں فردوسی کو روانہ کیں لیکن ایک دروازے سے اشرفیاں لانے والے داخل ہو رہے تھے اور دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ قبرستان جا رہا تھا

بعد میں یہ پوری رقم محمود غزنوی نے فردوسی کے مزار اور اس کی املاک کے پر خرچ کی ۔ 

جمعہ، 15 مارچ، 2024

- دنیائے ادب کا روشن ستارہ * منور رانا *


 شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہےایران کے مشہور  حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔

 اس شعری مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے  ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ یوں تو فردوسی کی ابتدائی زندگی کے تعلق سے زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔ فردسی کا مزار فارسی ادب اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے جو پاژ نامی گاؤں کے قریب میں واقع ہے۔ فردوسی کا مزار گزشتہ ہزار برسوں سے اب تک بار بار قدرتی آفات اور تاریخی واقعات کا شکار ہوا ہے مگر اسے ہر بار از سرنو تعمیر کیا گیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں ۔


یوں تو دربار غزنی میں چارسو شعراء موجود تھے لیکن جو شہرت وعظمت اُن میں سے شاہنامہ کے خالق فردوسی کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ فارسی شاعر فردوسی ایران کی تاریخ اور داستان کو زندہ کرنے والا اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے  والا  ایران  کا  سب سے  بڑا  شاعر ہے۔  علم شعر  تاریخ اور اخلاق کے اعتبار سے فردوسی عہد غزنویہ کی تمام ادبیات کا محور نظر آتا ہے،اس لئے اس کو  اگرفردوسی عہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

   ( فردوسی کی حالات زندگی۔)

اُس کا شاعر انہ لقب فردوسی اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں لیکن اس کے نام اور اس والد کے نام پر تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے. فردوسی علاقہ طوس میں طاہران کے قریب ایک گاؤں ریگبار میں پیدا ہوئے ۔وہاں ان کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن تیموری شہزادہ بایسنفر مرزا نے جو شاہنامہ کا مقدمہ لکھا ہے، اُس میں فردوسی کے گاؤں کا نام  شاداب رقم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلم ہے کہ فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ یہ وہی مردم خیز خطہ ہے جس نے امام غزالی جیسے محقق طوسی اور نظام الملک جیسے نامور عالم پیدا کیے۔

فارسی شاعر فردوسی کی تاریخ پیدائش نہ تو روایتوں کے  ذریعے اور نہ ہی شاہنامہ کے زریعے سے پتہ چل سکی لیکن یہ بات ختمی طور پر کہی جاتی ہے کہ شاہنامہ 1009 عیسوی میں مکمل ہوا کیونکہ خود فردوسی کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے۔

  ( شاہنامہ  لکھنے  کے  محرکات۔ )

شاہنامے کے بعد اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔  اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔ وہ طاہران  کے ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا، اس کی تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔

    (  شاہنامہ  کی  تکمیل۔ )

نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنائ میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔

  تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ ایک دفعہ محمود ہندوستان کی مہم سے واپس آرہا تھا اور راستے میں کوئی  ہندوستانی راجہ کا قلعہ تھا، محمود نے راجہ کو پیغام بھیجا کہ حاضر ہوکر اطاعت بجا لائے۔ راجہ کے جواب میں دیر ہوئی تو محمود نے اپنے وزیر حسن مہمندی سے کہا اگر جواب ہماری منشائ کے مظابق نہ ہوا تو حسن مہمندی نے بے ساختہ طور پر کہا ۔

اگر خیز  بکام من آید جواب      ہمیں گر زو میدان افرا سیاب

    ( شعر  سننے  پر  ‏محمود  کا  رد  عمل۔)

    محمود نے سنا تو پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے اس میں شجاعت اور مردانگی نظر آتی ہے۔ حسن نے جواب  دیا  کہ  یہ شعر  اُس بد نصیب کا ہے جس  نے پچیس سال محنت کرکے شاہنا مہ لکھا لیکن دربار غزنویہ سے محروم و نا مراد لوٹا ۔ محمود نادم ہوا اور کہا کہ غزنی پہنچ کر مجھے یاد کرانا ۔حسن مہمندی نے غزنی پہنچ کر محمود کو یاد دلایا اور ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کو بھجوادی گئی لیکن جب اُس کے شہر میں انعام ایک دروازے سے داخل ہوا تو دوسرے دروازے سے فارسی شاعر فردوسی کا جنازہ شہر سے باہر نکل رہا تھا۔ بالا آخر محمود کا یہ انعام فردوسی کی بیٹی کو پیش کیا گیا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ محمود نے حکم دیا کہ اس رقم سے فردوسی کے نام پر کاروان سرائے بنادی جائے۔بعض تذکرہ نویسوں کے  بیان کے مطابق فردوسی کی وفات 1040ئ میں ہوئی۔       

(  فردوسی کی وطن پرستی۔ )

فردوسی محب وطن شاعر تھے، ایران کی سرزمین سے اُسےبے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ  ایران کے لئے ہر  چیز  قربان  کرنا  چاہتا تھا،  اس کا مقام دربار  غزنویہ  کے  دوسرے  شعراء سے مختلف ہے۔  اگر کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے فردوسی کو پیشکش کی تھی کہ شاہنامہ کا ایک شعر لکھنے کیلئے وہ انہیں سونے کی ایک اشرفی دیں گے۔ لیکن فردوسی نے کہا کہ شاہنامہ کے مکمل ہونے پر انہیں پوری رقم ایک ساتھ ادا کی جائے۔ شاہنامہ مکمل ہونے پر محمود غزنوی نے انہیں ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے مگر جس سے سکے بھجوائے گئے تھے ا س نے خیانت کی اور اس طرح فردوسی، محمود غزنوی سے بد ظن ہوگئے۔ حقیقت معلوم ہونے پر سلطان نے انہیں دوبارہ ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے لیکن جب ان کا کارواں طوس میں داخل ہوا ، اسی وقت لوگ فردوسی کا جنازہ قبرستان لے کر جارہے تھے جن کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوچکی تھی۔ 

منور رانا کا پیدائشی نام سید منور علی ہے، وہ سید انور علی کے ہاں 26 نومبر 1952 کو بھارت کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ کالج، رائے بریلی میں جاری رہا، کچھ سال بعد مزید تعلیم کے لیے انھیں لکھنو بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہُوا، قیامِ لکھئنو کے دوران انھوں نے یہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں، لکھنو شہر میں کچھ سال کی عارضی سکونت کے بعد والد کے روزگار کے پیشِ نظر کلکتہ منتقل ہونا پڑا، جہاں 1968میں محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اورگریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ شہر کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لیا۔منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے، ان کی سوچ کو نیا رنگ دینے میں لکھنو کے ماحول کا خاص اثر رہا، خاص طور پر ان کے ادب نواز، محبت پرور دادا سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہدِ طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے، جس سے ان کو بہت سے شعرا کے اشعار ازبر ہو جاتے۔ منور رانا کی شاعری کا بنیادی موضوع غزل ہے، جس میں ماں جیسی عظیم ہستی کی عظمت پر ان کے سیکڑوں اشعار کسی اور شاعر کے ہاں پڑھنے کو نہیں ملتے۔ ان کا یہ شعر مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

تقریبا ستر کی دہائی میں میدانِ شعر وسخن کے ابتدائی دنوں میں ان کا نام ’’ منور علی آتش‘‘ رکھتے ہوئے پروفیسر اعزاز افضل کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوئے، ان سے اکتسابِ فیض پاتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی اور خوش اخلاقی کا بھرپور مظاہرہ کیا، انھوں نے اپنی پہلی نظم سولہ سال کی کم عمری میں کہی جو اُس وقت محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی، لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ماہنامہ ’’ شہود‘‘ میں شایع ہوئی، یہ رسالہ اپنے عہد کے معیاری رسالوں میں سے ایک تھا۔کچھ برس تک منور علی آتش کے نام سے مشہور ہونے پر نازش پرتاپ گڑھی اور راز الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدل کر ’’ منور علی شاداں‘‘ رکھ لیا یوں اس نئے ’’ شاداں‘‘ تخلص سے غزلیں کہنے لگے، لیکن چند ہی ماہ کے بعد والی آسیؔ جیسے شخصیت سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے اور ان کے مشورے سے 1977میں ایک بار پھر اپنا تخلص بدل کر ’’ منور رانا ‘‘ بن گئے۔

منور رانا کی شاعری میں اکثر موضوعات نئی نسل کا المیہ، وصال و ہجر، مردہ ضمیروں کا مرثیہ، زندگی کے نشیب و فراز، سدا بہار موسم کی طرح ملنے والے دُکھ، خزاں کی ستم ظریفی، روز مرہ کے جھگڑے اور وسائلِ زندگی سے محرومیاں ہیں۔ منور رانا نے شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری میں بھی جوہر دکھائے، ان کا اپنا تخلیق کردہ ڈرامہ 1971 میں ’’جئے بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے کلکتہ کے ہومیو پیتھی کالج میں منعقدہ ڈرامہ مقابلے میں نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور یوں یہ ڈرامہ انعام یافتہ قرار پایا۔اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری بھی کی، جس پر معلوم ہُوا کہ ’’ بالخصوص سجن کمارکی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسندکی گئی کہ اس ڈرامہ کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے، بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندرکی ایک فلم کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہُوا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم اور اداکاری کا آسیب اتر گیااور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لیے میدان شاعری میں آ گئے ۔‘‘منور رانا کی تصانیف میں بدن چوپال، چوڑی ٹوٹ جاتی ہے، بغیر نقشے کے مکان، کہو ظلِ الٰہی سے، چہرے یاد رہتے ہیں، سخن سرائے، سفید جنگلی کبوتر، جنگلی پھول، مہاجر نامہ نمایاں ہیں۔  

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے بہت سے رشتے دار پاکستان ہجرت کر گئے تھے، لیکن ان کے والدنے بھارت کو ہی اپنا مسکن بنائے رکھا۔ ان کے کلام میں ہجرت کا دکھ بھی پایا جاتا ہے جس پر وہ غم زدہ اور افسردہ رکھتے ہوئے اپنے اس دُکھ کر ہمیشہ تازہ رکھتے۔ منور رانا صاحب کی شاعری ، صرف عشق و عاشقی کے موضوع پر ہی نہیں،  شخص اور بنگلہ دیش کی

جمعرات، 14 مارچ، 2024

ہارٹ اٹیک سے بچنے کے روحانی زرائع

۔زرا سوچئے کیا آ ج سے پہلے کے زمانے میں ہارٹ اٹیک کی کوئ خبر ملتی تھی-کم از کم میرے اپنے پاس ایسی کوِ خبر کبھی نہیں تھی کہ میں کہہ سکتی کہ فلاں کو ہارٹ اٹیک ہو ا ہےپھر آج کے دور میں یہ مرض اتنا عام کیوں ہو گیا تو سب سے پہلے میں اپنے شوہر کے بارے میں بتاوں گی کہ ہم سب گھر والے چین سکون کی محنت کش زندگی گزار رہے تھے -میں گھر پر ٹیوشن پڑھاتی تھی اور شوہر حق حلال کی کمائ میں مگن تھے لیکن ایک دن یوں ہوا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ چھوٹے صاحبزادے نے سیاست کی خا رزار وادی میں قدم رکھ دیا ہے-یہاں تک بھی سب معمول کے مطابق تھا لیکن ایک شام ہمارے گھر پر کچھ نوجوان آ ئے اور انہوں نے کہا آج رات بیٹے کو کہیں کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا جائے کیونکہ آج کی رات مہار نوجوانوں پر بھاری رات ہے میں نے فوراً بیٹے کو گھر سے دور اپنی والدہ کے گھر بھیج دیا لیکن اس خبر نے میرے شوہر کو ہارٹ اٹیک سے دوچار کیا میں ایمر جنسی میں ان کو لے کر بھاگی اور صبح کی پہلی خبر تھی کہ کراچی کے اٹھائیس نوجوانوں کی لاشین خون میں لت پت سڑکوں پر پھینک دی گئیں تھیں-اس سے آگے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کراچی کی خونی تاریخ رقم کی جاتی رہی ہے-میرے وطن کے ہر' ہر حاکم نے اپنا حصّہ بقدر جثّہ کراچی کی غارت گری میں ڈالا ہے  -اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرونی حالات کا اثر اندرونی دباو کی صورت میں شدت سے نکلتا ہے 'چاہے وہ ہارٹ اٹیک ہو

‘‘ انسان کے جسم میں دل کا کردار بہت عظیم ہے۔قلب، انسانی بدن میں تمام اعضا کا سردار ہے، جسم کے تمام اعضا کا دارومدار اسی پر ہے، اسی لیے حضو نے امت کو دل کے بارے میں ہدایات دیں۔ یہ دل کیا ہے؟ یہ پٹھوں کے مجموعے پر مشتمل ایک ایسا عضو ہے جو انسانی بدن کو مسلسل خون پہنچاتاہے۔ یہ انسانی تن میں موجود خون کے نظامِ گردش کے درمیان واقع ہے۔ یہ پورانظام، خون کی رگوں کے ایک جال پر مشتمل ہے۔ خون‘ دل سے پورے انسانی بدن کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا پھر واپس دل کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دل کا نظام ایسا رکھا ہے کہ اس میں غور کرتے ہوئے انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق دل‘ ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ دل‘ہر منٹ میں تقریباً پانچ یا چھ ہزار کوارٹرگیلن خون انسانی بدن کے مختلف اعضا تک پہنچاتا ہے۔ انسان کے جسم میں یہ واحد عضو ہے جس کی حرکت پر انسانی زندگی کی بقا ہے۔اس کا حجم انسانی مٹھی جتنا ہے، جسے انسان آسانی سے اپنے ہاتھ میں تھام سکتا ہے۔

یہ دل ہی ہے اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو ظاہری و باطنی امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ظاہری مرض تب ہوتا ہے، جب دل کی نالی تنگ ہوجاتی ہے، جس کے سبب خون کا بہاؤ کم ہوجاتاہے، نتیجے کے طور پرسینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور سانس مشکل سے آنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑجاتا ہے، جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ صرف امریکا میں سالانہ ایک ملین افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ظاہری مرض کا علاج ڈاکٹر اور حکیم کرتے ہیں، جن پر انسان ہزاروں روپے پانی کی طرح بہادیتے ہیں۔ دل کے باطنی امراض بھی بہت ہیں، جن میں اکثر انسان مبتلا ہیں، جن کا احساس بھی انسان کو کم ہی ہوتا ہے، جیسے: کینہ، بغض، عداوت، دشمنی، حسد اور تکبر ہے۔ یہ ایسے امراض ہیں جو بغیر توبہ اور اصلاح کے ختم نہیں ہوتے۔ حدیث مبارک سے بھی یہی مراد ہے۔اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا ان امراض میں مبتلا ہے۔ آج پوری دنیا سکون و راحت کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے، آرام و سکون کیسے حاصل ہوگا؟ جبکہ ہم نے اپنے دل کو بغض، عداوت، حسد، کینہ اور تکبر جیسے گناہ سے جو بھر رکھا ہے۔   حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا ـ: ’’إیاکم والحسد فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب‘‘۔ ’’ اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ! اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔‘‘ یہ حسد ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے، ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے

،  شیطان تکبر کی وجہ سے برائی اور نافرمانی میں مبتلا ہوا۔دوسری چیزآدمی کا لالچ ہے،کیونکہ آدم  نے لالچ کی وجہ سے پھل کھایا اور جنت سے نکالے گئے۔تیسری چیز آدمی کا حسد ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے پہلا خون حسد کی وجہ سے ہوا۔ قابیل نے ہابیل سے حسد کیا کہ اس کو وہ چیز کیوں مل رہی ہے جو مجھے نہیں مل رہی، اس نے چاہا کہ یہ اس کونہ ملے، اسی بات نے اُسے پہلے خون پر آمادہ کیا۔ یہ حسد بنیادی چیز ہے جوبہت سارے برے اعمال، اخلاقی برائیوں اور انسانوںکے ساتھ تعلقات میں اپنا کردار ادا کرتی ہے تو ان سب سے ہمیں بچنا چاہیے۔ دل تو ابتداہی سے بالکل خالی پیالے کی طرح تھا، ہم نے خود اس میں لذات کا اضافہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کی محبت کی جگہ ہی نہیں رکھی۔ دل کا سکون حاصل کرنے کے لیے ایک ملک سے دوسرے ملک سیروتفریح کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ آج کا مسلمان،بیہودہ فلموں اورحیا باختہ گانوں میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے، اسی کو اپنا مقصد ِحیات بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس میں سکون رکھاہی نہیں۔ سکون اور اطمینان قلب وہاں ڈھونڈنا چاہیے جہاں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘۔(الرعد:۲۸) ’’خبردار! ( سن لو) اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں‘‘


  خدا کی ذات کو یاد کرنے والے کتنے لوگ چین و آرام کی زندگی پاتے ہیں، ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ سکون و اطمینان اللہ کے گھر اور وہاں ہوتاہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی جاتی ہے۔توآئے اللہ پاک کی زات سے منسلک ہو جائیے اور اپنے دل کی راحت کا انتظام اپنے اعمال سے کیجئے اسی میں دنیا اور عقبیٰ کی راحت ہےہم اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اور دوسروں کی مدد کرکے سکون حاصل کر سکتے ہیں اور ڈپریشن سے باہر نکل سکتے ہیں۔انسان اپنے جسم کو خوراک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے اور جسم کو آرام دینے کے لئے طرح طرح کی آسائشیں تلاش کرتا ہے، لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس جسم کے اندر ایک روح بھی ہے،جو اس کے جسم کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے اور اس روح کی بھی ایک غذا ہے اور جب تک اس روح کو غذا نہیں ملے گی،تب تک جسم کو آرام پہنچانے کی ہر کوشش بے کار ثابت ہوجائے گی،جس کا مشاہدہ ہر کوئی باآسانی کرسکتا ہے کہ انسان نفس کی تسکین کے لئے جتنی جدوجہد کیوں نہ کرلے، وہ سکون و آرام سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتاہے، لیکن جب انسان رب کی تابعداری شروع کردیتا ہے تو اس کی روح کو اتنا ہی چین و قرار آتا چلاجاتا ہے۔


ایوب خان کا اسلام آباد'زندہ باد


کراچی میں سیاستدانوں کی دال نہیں گلنی تھی اس کے لئے مادر -پدر آزاد دارلخلافہ چاہئے تھا سو فیصلہ ہو گیا کہ اب ایوب خان کا اسلام آباد دارلخلافہ بنایا جائے گا -اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی ۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا ۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا ۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا ۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے ۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے ۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انھیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے ۔ 1961ء کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا ۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی ۔ باگاں بعد میں دار الحکومت بن گیا مگر 1961ء کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔بری امامؒ کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظمیؒ ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں ۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے) اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے ۔ بری امامؒ کی والدہ ، بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں ۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گذر رہی تھی ۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کو روز اینڈ جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے ۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گذرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے ۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔ یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ قائم کیا گیا۔

اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا ۔ ان ملازمین میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی ۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا ۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ “ رکھا ۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی ۔ سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں ----

خطہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ نے پاکستان میں بے پناہ خوبصورتی اور بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد جس کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق لندن دنیا کا خوبصورت تریندارالحکومت ہے جس کے بعد اسلام آباد کا نمبر آتا ہے۔جس کو اللہ نے نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اور خوبصورتی کے حساب سے تو وہ شہر اپنی مثال آپ ہے۔اس فہرست میں برلن تیسرے، واشنگٹن چوتھے، پیرس پانچویں، روم چھٹے، ٹوکیو ساتویں، بڈاپسٹ آٹھویں، اوٹاوا نویں جبکہ ماسکو دسویں نمبر پر ہے۔ اسلام آباد کی وجہ شہرت سرسبز و شاداب درخت، آسمان سے باتیں کرتے مارگلہ کے پہاڑ، آبشاریں، سواں کا موجیں مارتا دریا ہے۔1958 تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ لیکن اس کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی، معاشیات اور دفاعی اعتبار سے غیر معقول ہونے کی وجہ سے دارالحکومت کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا، اس ضمن میں کمیشن تشکیل دیا گیا اور ایسے خطے کی تلاش شروع کی گئی جو کہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے بھی محفوظ ہو۔ چنانچہ کمیشن نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواں کے سنگم پر مارگلہ کے دامن میں واقع خطہ پوٹھوہار کا انتخاب کیا اور 1960 میں دارالحکومت کی تعمیر کی داغ بیل ڈالی گئی۔ شہر کی طرز تعمیر یونانی معمار ڈاکسی ایسوسی ایشن کمپنی نے کی۔ اس دوران راولپنڈی کو عارضی طور پر دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔جب بات آئی دارالحکومت کے نام رکھنے کی تو ایوب خان نے قوم سے تجاویز مانگی، اور پھر 24 فروری 1960 کو ایوب خان کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ زیادہ تر تجاویز میں مسلم آباد، جناح آباد اور اسلام آباد کے نام آئے، لہٰذا مشاورت کے بعد اس جگہ کا نام اسلام آباد رکھ دیا گیا۔ اسلام آباد کا نام ارب والا سے تعلق رکھنے والے 

ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن نے تجویز کیا۔ بعد ازاں اسلام آباد کے انتطامی امور کےلیے سی ڈی اے کا قیام عمل میں آیا۔تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو خطہ پوٹھوہار کی انسانی تاریخ 20 لاکھ سال پرانی ہے۔ اس کا ثبوت دریائے سوا کے کنارے سے ملنے والے پتھر کی کلہاڑی اور شاہ اعلیٰ وتا گاؤں میں موجود غار ہے جو کہ انسان کے پتھر کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ تاریخ اس بات کا پتہ بھی دیتی ہے کہ خطہ پوٹھوہار آریاں خاندان کے وسط ایشیا میں پہلا مسکن تھا۔اس کے علاوہ یہاں موجود گوردوارے، سرائے، مندر، بارہ دریاں اور ہزاروں سالوں پرانی زیارت گاہوں کے آثار اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان سے آنے والے جنگجو جس میں شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، سکندر اعظم، چنگیز خان اور مغل بادشاہ کا لشکر اس علاقے میں نہ صرف قیام کرتا تھا بلکہ یہاں سے برصغیر ہند پر حملہ آور بھی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں اولیاء کرام نے بھی ڈیرے ڈالے ہیں جن میں میر علی شاہ اور سید عبدالطیف کاظمی نے نور پور شاہ میں پڑاؤ کر کے اس خطے کے لوگوں کو اسلام کے نور سے منور کیا۔شہر اقتدار اسلام آباد کے محل وقوع کی تو اس کے شمال میں مری اور مارگلہ، مغرب میں ٹیکسلا اور مشرق میں راولپنڈیواقع ہے۔کسی بھی شہر کا موسم اس علاقے کی آب و ہوا میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اسلام آباد کے شہری 5 موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نومبر سے اپریل سردی، مئی جون گرمی، جولائی اگست مون سون، ستمبر اکتوبر خزاں کا موسم ہوتا ہے ۔ جب کے سب سے زیادہ گرمی جون اور سخت سردی جنوری کے موسم میں ہوتی ہے ۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری ہوتا ہے جو کہ دوسرے شہروں سے کم ہے؛ جس کی وجہ یہاں سرسبز و شاداب درختوں اور پہاڑی سلسلہ ہے۔اسلام آباد چونکہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، تو کوئی بھی علاقہ خوبصورت ہو اور اس میں تفریح مقامات نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے۔شہر اقتدار اسلام آباد میں شکر پڑیاں، مونومینٹ میں جاسمین گارڈن، ایف 9 میں پارک، راول اے پارک، چڑیا گھر، پلے لینڈ، لوک ورثا کے علاوہ دامن کوہ پیر سواہا کے مقامات واقع ہیں اور 2011 کے بعد سینٹورس شاپنگ مال اسلام آباد بھی ایک خاص مقبولیت رکھتا ہے۔-

منگل، 12 مارچ، 2024

عورت دنیا کے آنگن کا مہکتا ہوا پھول ہے

 ایک بڑی خبر -انڈیا میں چنائے کے میونسپل  انتخابی نتائج حیران کرنے والے رہے جہاں دو درجن سے زائد مسلمان باحجاب خواتین نے الیکشن کی جیت اپنے باحجاب سر پر سجا لی ایک پیغام میں فاطمہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے فضل سے الیکشن جیتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اللہ نے مجھے بڑی کامیابی سے نوازا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ایک اور حجاب پوش مسلم امیدوار علیمہ بیگم، جنہوں نے سوشل اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا، کوئمبٹور میونسپل کارپوریشن سے جیت حاصل کی۔مسلم سیاسی کارکنوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی 90 فیصد سے زیادہ مسلم خواتین حجاب پہنتی ہیں۔ یہ انتخابات 21 میونسپل کارپوریشنوں،138 میونسپلٹیوں اور490پنچایتوں کی12,607نشستوں کے لیے ہوئے تھے۔ 12,607 نشستوں میں سے 50 فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔22 سے زیادہ حجاب پہننے والی مسلم خواتین نے M H Jawahirullah کی سربراہی میں(Manithaneya Makkal Kachi (MMKپر مختلف مقامات سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان میں بینظیر جاسمین اور شکیلہ بانو تروورور میونسپلٹی سے ہیں۔سی پی ایم کی ایک امیدوار، جو حجاب بھی پہنتی ہیں، برکت نیسا نے کوٹا کوپم میونسپلٹی میں کامیابی حاصل کی۔یہ دراصل باحجاب خواتین کی سماجی فعالیت کی زندہ مثال ہے۔یہاں دیگر حجاب پہنے ہوئے امیدواروں کی تصاویر ہیں، جنہوں نے میونسپل انتخابات میں کامیابی حاصل کی ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔ ہمارے آفاقی مذہب کی مثال دنیا دیتی ہے کیونکہ اس میں ہر چیز توازن اور انصاف کے دائرے میں گھومتی ہے،

 اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی سے ناانصافی نہیں کرتا اور ہرطبقہ فکر کے ساتھ ہرمذہب کے پیروکار کی معاشی سماجی اور مذہبی آزادی کو بروئے کار لانے کےلئے مدد فراہم کرتاہے۔دوپٹہ، چادر، حجاب ہماری تہذیب کا آئینہ ہے، عورت کی عصمت کی پہچان ہے اور یہ ہرگھر کے اسلاف کی روایت ہے، قرآن کریم میں لکھ دیاگیا کہ ”عورتیں اپنے سینوں پہ اوڑھنیاں ڈال لیں“ توپھر اسکے بعد اس سے انکار یا مختلف استعماری قوتوں کی یلغار کیا معنی، ہمارے مذہب اور تہذیب کو ہدف بنانا اور مسلمان بچیوں کے سروں سے حجاب کھینچنا کہاں کا انصاف ہے، عبائے اور نقاب کو حجاب اور سرڈھانپنے کو دہشت گردی سے جوڑنے کی شدید سازش کی جارہی ہے۔ وہ معاشرے جو بے حیائی کا سرچشمہ ہیں وہ حجاب اور دوپٹے کے تقدس کو کیا جانیں؟گلستان میں پھول کھلتے ہیں تو مالی انکی مکمل حفاظت کرتاہے ، پانی،دھوپ، روشنی، سایہ ہر چیز وقت پہ ضرورت کے تحت ان کو مہیا کرتاہے تاکہ وہ اپنے جوبن پہ آئیں اس کے چمن کو خوبصورت بنائیں انکی مہک سے اس کا باغ معطر ہو اسی طرح سے عورت بھی دنیا کے چمن کا پھول ہے اس کی حفاظت گھر والے اس طرح کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ زندگی بھر مہکے اور اس پر کسی کی ایسی بری نگاہ نہ پڑے کہ وہ مرجھا جائے۔ عورت جہاں محبت کی علامت ہے وہاں اسکی عصمت اور حیا بھی خاندان کا زیور ہوتی ہے جس طرح ایک عورت اپنے بھائی باپ، بیٹے اور شوہر کے ساتھ باہر نکلنے میں خود کومحفوظ سمجھتی ہے اسی طرح جب اسے کبھی تنہا اس کو چادر وحجاب میں لپٹ کر نکلے تو اسی حفاظت کا احساس اسے ہوتاہے، گویا حجاب اسے زمانے کی بری نگاہوں سے اسے بچاتاہے،

 عورت خوبصورتی اور کشش کا سرچشمہ ہے اگر وہ خود اس کی حفاظت نہیں کرتی اور بے پردہ ہوکر یا ایسا لباس پہن کر باہر نکلتی ہے جس سے اسکی نمائش ہو تو وہ عورت کی عظمت کے مینار سے پست ہوجاتی اور کسی بھی نامساعد حالات کی خود بھی اتنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے جتنا کہ معاشرہ۔حجاب کوئی سماجی یا روایتی رویہ نہیں ہے یہ مذہبی اور خاندان نظام کی ناموس ہے، اسی دوپٹے اور حجاب کے ساتھ مسلمان خواتین ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھ لیں کیا دوپٹہ ان کی ترقی میں حائل تھا؟ کیا بے نظیر بھٹو جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں کیا دوپٹے نے ان کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلئے کام کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی؟ کیا مسز عبدالستار ایدھی کے سرڈھانپنے نے مستحقین کی امداد کرنے میں کوئی مشکل پیدا کی؟ آج بھی ہماری یونیورسٹیز، سکول اورکالجز میں طالبات حجاب لے کر آتی ہیں اور الحمدللہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی حجاب میں رہتے ہوئے چاہے وہ عبایا ہو دوپٹہ ہو سکارف ہو چادر دنیا کے مختلف کونوں میں جاکر کامیابی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتیں اور پاکستان کی پہچان بنتی ہیں،

آج تو پہلے کی نسبت حجاب کرنے کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ہی عورت کی عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہواہے، حجاب پر پابندیاں عائد کرنے کی سازش ان اسلام اور تہذیب کے دشمن عناصر کی ہے جو ہمارے مضبوط باحیائ، باوقار خاندانی نظام اور سماجی بہبود کے استحکام کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں۔اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔

عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا…؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے  اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔رسال4ستمبر کا دن پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منایاجاتاہے، یہ دن فرانس میں حجاب پہ پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔


پیر، 11 مارچ، 2024

جگرکو صحت مند رکھنے والی غذائیں

 

   جگر   کو صحت مند رکھنے والی غذائیں  - جیسا کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ جگر انسانی جسم کا انتہائی اہم عضو ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جگر ہمارے بدن میں توانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کو سی غذائیں ہمارے جگر کو تندرست رکھنے میں معاون و مدد گار ہو تی ہیں - ٹماٹر  کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتا ہے،  ا‫ٹماٹر بھی جگر کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں، ان میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس جگر کا ورم کم کرنے کے ساتھ انجری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں -ٹماٹر ایسی غذا ہے جسے سلاد کے طور پر کچا اور ہر سالن  میں استعمال کیا جاتا ہے ،، اس کی تاثیر ٹھنڈی اور اس کے استعمال سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے، خون پتلا ہوتا ہے اور خون میں موجود لال خلیوں کی افزائش ہوتی ہے، خون کی کمی کی شکایت ۔صحت مند زندگی کے لئے ڈرائی فروٹ استعمال کریں‬‎۔ کاجوکینسرسے بچاؤ، صحت مند قلب، مضبوط ہڈیوں اور خوشگوار نیندکے لیے ضروری ہے۔ 

سبز پتوں والی سبزیاں قدرتی طور پر جگر کی صفائی میں مدد دیتی ہیں۔-گاجر اینٹی آکسائیڈنٹس، وٹامنز، منرلز اور غذائی فائبر موجود ہوتے ہیں اور اس کا جوس جگر میں ڈی ایچ اے، ٹرائی گلیسڈر اور مونو ان سچورٹیڈ فیٹی ایسڈز لیول کم کرتا ہے جبکہ جگر میں چربی چڑھنے اور زہریلے مواد سے ہونے والے نقصان سے بچنے میں بھی مدد دیتا ہے۔سبز چائے پینے کی عادت کے متعدد طبی فوائد ہیں اور اس میں موجود پولی فینولز جگر کے کینسر، جگر کے امراض اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گرین ٹی ایکسٹریکٹ جگر کی چربی چڑھنے کا باعث بننے والے انزائمر کا خطرہ کم کرتا ہے،جگر ہمارے جسم کا اہم اور حساس ترین اعضاء ہے جو خون بنانے، اس کی صفائی اور  پورے جسم میں ترسیل کا کام کرتا ہے، غذا کے ہضم ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مائع شکل کی غذائیت سب سے پہلے جگر میں جاتی جہاں جگر اسے پورے جسم میں پہنچانے سے پہلے خون کی شکل دیتا ہے اور صحت مند خون کی جسم میں ترسیل جبکہ گندے خون کو الگ کر دیتا ہے، اسی لیے انسان کی مجموعی صحت کا انحصار صحت مند جگر پر ہوتا ہے۔ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جبکہ پروسیسڈ غذاؤں سے اس پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،

 جگر کو صحت مند رکھنے اور کارکردگی بہتر بنانے اور کے لیے مندرجہ ذیل مشروبات کا استعمال نہایت مفید ہے -جگر کی صحت کے لیے گاجر کا کسی بھی شکل میں استعمال کیا جا سکتا ہے ، ، گاجر کے جوس میں پالک کا جوس اور تھوڑا پانی ملا ک ر پینے سے جگر توانا اور خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے ۔گاجر میں وٹامن اے، فلاوینائیڈز ، بیٹا کیروٹین اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی مدد سے جگر کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے، گاجر کا روزانہ استعمال کرنا نہایت موزوں ثابت ہوتا ہے ۔گاجر ، بند گوبھی ، پھول گوبھی، کھیرا، کریلے ، کدو، چکندر اور پالک کا استعمال جگر کی صحت کے لیے نہایت مفید ہے، ان سبزیوں کو سلاد یا جوس بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، ہرے پتے والی سب ہی سبزیوں میں فائبر بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جس سے جگر کی صفائی میں مدد ملتی ہے ۔سبز چائےماہرین کے مطابق کیفین اور دودھ والی چائے کے بجائے اگر سادہ سبز چائے کا استعمال کیا جائ تو اس کا جگر سمیت آپ کی مجموعی صحت پر نہایت مثبت اثر پڑتا ہے ، سبز چائے کینسر کے خطرات کو کم کرتی ہے ، وزن گھٹاتی ہے اور جسم میں موجود مضرِ صحت مادوں کو زائل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، کولیسٹرول متوازن رکھتی ہے جو کہ جگر کے لیے نہایت مفید ہے ۔

ہلدی کی چائےآسانی سے دستیاب قدری جڑی بوٹی ہلدی جگر کی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ، ہلدی کی چائے جگر کو پر سکون رہنے میں مدد دیتی ہے۔ایک گلاس پانی میں آدھا چمچ ہلدی ملا کر 10 منٹ ابالیں، اب اس چائے کو چھان کر اس میں حسب ضرورت لیموں اور ایک چٹکی کالی مرچ کا پاؤڈر ملا کر استعمال کریں۔ہلدی کی چائے کے استعمال سے جگر کے متاثر پٹھوں کو نئے سرے سے بننے میں مدد ملتی ہے، سوجن میں آرام آتا ہے ۔سٹریس فروٹوٹامن سی سے بھر پور سٹریس پھل جگر کی صفائی کے لیے بہترین پھل سمجھے جاتے ہیں ، ان پھلوں میں اینٹی آکسیڈنٹ پائے جانے کے سبب جگر کی صحت اور قوت مدافعت مضبوط ہوتا ہے۔بہتر نتائج کے لیے سٹریس پھل کینو، لیوں، کیوی، ٹماٹر ، چکوترے کا تازہ جوس نکال کر نہار منہ استعمال کریں۔چقندر کا استعماچکندر نا پسندیدہ سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر اس کے استعمال کے کئی فوائد ہیں ، اس کے استعمال سے خون میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ ہوتا اور انزائم کی کاکردگی بھی درست ہوتی ہے ، چکندر میں وٹامن سی اور فائبر بھاری مقدار میں پایا جاتا ہے۔چکند ر کے رس کا ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس میں لیموں اور پالک کا جوس ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے


مچھلی  جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مچھلی سے جسم کو امینو ایسڈز اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی ملتے ہیں جو کہ جگر میں نقصان دہ چربی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔گریپ فرو        ٹ پھل وٹامن سی اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جو جگر سے زہریلے مواد کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ اے مختلف امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، بس ایک سیب روزانہ اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہےسیب بعض دیگر پھلوں کے مقابلے میں خاص طور پر فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ وٹامنز، معدنیات، مرکبات اور غذائی اجزا کے اپنے منفرد امتزاج کی وجہ سے سے سیب جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے، ذیابیطس کے خطرے کو روکنے اور دماغ، دل اور یہاں تک کہ دانتوں کی صحت کو فروغ دینے میں کردار ادا کرتا ہے۔ ہر بڑا سیب ان غذائی اجزا پر مشتمل ہوتاہے۔-جگر کے مسائل میں سب سے عام نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز ہے جس کی وجہ طرز زندگی کی خراب عادتیں ہوتی ہیں، مگر طبی سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ زیتون کے تیل کا استعمال کرتے ہیں، ان میں جگر کے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، زیتون کا تیل نقصان دہ کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں جبکہ انسولین کی حساسیت بڑھتی ہے۔



 ۔

اتوار، 10 مارچ، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرا بچپن


-ہمالیہ کی وادی میں واقع  کے بارے میں برصغیر کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ لکھنو اس خطہ زمین پر بسنے والے شہر کا نام ہے  جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔۔ یہاں کے انتہائ با زوق حکمرانوں اور نوابوں اور راجاوں  نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔-وہ اس خطہ پر ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے-اس وقت لکھنو پر سادات کی سو سالہ حکمرانی تھی اور انہوں نے ہی میرے اجداد کو یہاں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی -میرے اجداد  قیمتی ہیروں کے تجارت کرتے تھے اور نہائت امارت کے حامل لوگ تھے انہوں نے لکھنو شہر میں وارد ہوتے ہی بڑی بڑی حویلیاں خرید کر اپنے خاندانوں کو اس میں بسا دیا تھا وہ کیونکہ خود بھی سادات کے قبیلے سے تھے اس لئے ان کی شاہی دربار میں خوب پذیرائ ہوئ تھی  -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی-ہر حویلی کے پچھلے حصے میں پائیں باغ لازمی ہوتا تھا ساتھ ہی حویلی کے پائیں باغ میں موٹے رسے کا جھولا -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی -

ساون بھادوں کے آتے جاتے موسموں میں بیسن کے پکوانوں کی خوشبو  -ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں میں منوں پھل اور اناج اترتے دیکھنا گھروں میں نوکروں کی ریل پیل کی گہما گہمی -صبح 'صبح گھر کی شادی شدہ خواتین  ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بناو سنگھار پر توجہ دیتی تھی اس سنگھار میں بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے پہننا تو جیسے شادی شدہ عورت پر واجب تھا -اس پر سے آنکھوں میں کاجل یا سرمے کی بہار-زیادہ تر سرمہ یا کاجل گھر میں بنایا جاتا تھا اور حویلی سے کچھ فاصلے پر ہاتھی یا ہاتھیوں کے رہنے کے بڑے بڑے کشادہ اور اونچی چھتوں والے مسکن ہوتے تھے جہاں وہ اپنے فیل بانوں کے ہمراہ رہا کرتے تھے -اور شاہی دربار سے جب بلاوہ آتا تھا فیل بان ہاتھیوں کو قیمتی ہو دج اور اس کے زیور سے آراستہ کر کے حویلی کے دروازے پر لا کر کھڑا کرتے تھے اور جب مرد حضرات ہاتھی پر سوار ہوجاتے تب فیل بان ان کو لے کر روانہ ہو جاتا -بڑی بوڑھیا ں سفید وائل  کے کرتے کے ساتھ سفید غرارہ زیب تن کرتی تھیں -

یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے نہ صرف خواتین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ ان کی شادی شدہ زندگی میں بھی ایک خوشگوار رومانوں رنگ بھرنے کا سبب بنتے ہیں -لیکن یہ سب کچھ باہر کی دنیا سے مخفی رکھا جاتا تھا عورتوں کو کھلے بندوں باہر نکلنے کی ہر گز آزادی نہیں تھی-اگر کبھی آس پڑوس کے گاوں میں جانا ہوتا تھا توحویلی کے آخری سرے پر ڈیوڑھی ہوتی جہاں برقع پوش خواتین جمع ہوتی تھی اور پردے دار بگھیاں آ کر رکتی ہیں اور خواتین ان بگھیوں جا کر بیٹھتی تھیں -گھر کی لڑکیوں بالیوں کو چوڑیا ں پہنانے منہیارن آیا کرتی تھی کسی دن انہی بگھیوں پر کپڑے کے بے شمار تھان آجایا کرتے تھے-اگر گھر میں شادی کا موقع آتا تو یہ تھان بہترین  کمخواب اور زربفت کے ہوتے تھے-یعنی سونے اور چاندی کے تاروں کی آمیزش کے ساتھ بنایا ہوا قیمتی کپڑاہوتا تھا-پان کھانے کا رواجان کے لوازمات میں لونگ، الائچی، سونف اور مصری بھی شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ چھالیہ کترنے کے لئے ”سروتہ“ اور پیک تھوکنے کے لئے ”اگال دان“ بھی مغلوں ہی کی ”ایجاد“ تسلیم کی جاتی ہے۔

ہندوستان میں اس کا قدیم نام ”پٹارہ“ یا ”پٹاری“ تھا۔ چوں کہ یہ رواج سب سے پہلے راجستھان و مارواڑ کی راجپوت ریاستوں میں رائج ہوا تھا اور وہیں اسے یہ نام عطا کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے باشندے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، ان میں پاندان کو آج بھی پٹاری ہی کہا جاتا ہے۔لفظ ”پاندان“ مغلوں کا رائج کردہ ہے۔ لفظ ”دان“ فارسی میں کسی بھی چیز یا علم کو محفوظ یا نصب رکھنے والی اشیاءیا افراد کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً، اگر دان، شمع دان، گل دان، تاریخ دان اور نفسیات دان وغیرہ۔ چناچہ مغلوں کی براہ راست عمل داری میں شامل شہروں اور دیگر مسلم ریاستوں میں ”پٹاری“ کی جگہ لفظ ”پاندان“ رائج ہوگیا۔ایک طرف گھر آئے مہمان کو پیش کرنا مہمان نوازی کی   علامت ہوا کرتا تھا ۔پان کی گلوری رواج پا گِئ  میں جب زرا بڑی ہوئ تو دادی جان کا حقّہ بھرنے کی زمّہ داری میری ہو گئ یقین جانئے حقّہ کی چلم میں بھری جانے والی تمباکو کی مہک میرے دماغ میں گھس کر ڈیرہ جما لیتی تھی اور میرا دل پھڑکنے لگتا تھا کہ کاش بس ایک دفع میں بھی حقّے کا کش لے سکوں -لیکن میرا رمان کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ چھوٹے سے گھر میں یہ جسارت ممکن نہیں تھی-

میں نے ایک بار دادی جان سے پوچھا تھا کہ آپ حقّہ کیوں پیتی ہیں تو دادی جان نے بتایا تھا کہ ان کوشادی کے بعد گھر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی بس سج سنور کراپنی مسہری پر بیٹھ  جانا ہوتا تھا-اس جمود والی زندگی سے ان کو صحت کے مسائل لاحق ہوئے تو گھر کی طبیبہ نے حقّہ پینے کا مشورہ دیا اور ساتھ میں بتایا کہ تمباکو پینےسے بہت سے امراض کا علاج ہوتا ہے-یہ خوبصورت کہانیا ں سنتے ہوئے میں تصور کی دنیا میں کھو جایا کرتی تھی جب اپنے اجداد کے قصے اپنی نانی جان یا دادی جان کی    زبان سے سنتی تھی -پھر کچھ کچھ شعور آتے ہوئے میرا دل ان کہانیوں سے اوبھنے لگا اور میں سوچنے لگی کہ میں اس کھوئ ہوئ میراث کو کیسے حاصل کر سکتی ہوں -لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئ اونچی اڑان اڑتی محض سولہ برس کی عمر میں میری شادی ہو گئ -اور چوہا پہاڑ کے نیچے آ گیا 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر