ایک بڑی خبر -انڈیا میں چنائے کے میونسپل انتخابی نتائج حیران کرنے والے رہے جہاں دو درجن سے زائد مسلمان باحجاب خواتین نے الیکشن کی جیت اپنے باحجاب سر پر سجا لی ایک پیغام میں فاطمہ نے کہا کہ میں نے اللہ کے فضل سے الیکشن جیتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اللہ نے مجھے بڑی کامیابی سے نوازا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ایک اور حجاب پوش مسلم امیدوار علیمہ بیگم، جنہوں نے سوشل اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا، کوئمبٹور میونسپل کارپوریشن سے جیت حاصل کی۔مسلم سیاسی کارکنوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی 90 فیصد سے زیادہ مسلم خواتین حجاب پہنتی ہیں۔ یہ انتخابات 21 میونسپل کارپوریشنوں،138 میونسپلٹیوں اور490پنچایتوں کی12,607نشستوں کے لیے ہوئے تھے۔ 12,607 نشستوں میں سے 50 فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔22 سے زیادہ حجاب پہننے والی مسلم خواتین نے M H Jawahirullah کی سربراہی میں(Manithaneya Makkal Kachi (MMKپر مختلف مقامات سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان میں بینظیر جاسمین اور شکیلہ بانو تروورور میونسپلٹی سے ہیں۔سی پی ایم کی ایک امیدوار، جو حجاب بھی پہنتی ہیں، برکت نیسا نے کوٹا کوپم میونسپلٹی میں کامیابی حاصل کی۔یہ دراصل باحجاب خواتین کی سماجی فعالیت کی زندہ مثال ہے۔یہاں دیگر حجاب پہنے ہوئے امیدواروں کی تصاویر ہیں، جنہوں نے میونسپل انتخابات میں کامیابی حاصل کی ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔ ہمارے آفاقی مذہب کی مثال دنیا دیتی ہے کیونکہ اس میں ہر چیز توازن اور انصاف کے دائرے میں گھومتی ہے،
اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی سے ناانصافی نہیں کرتا اور ہرطبقہ فکر کے ساتھ ہرمذہب کے پیروکار کی معاشی سماجی اور مذہبی آزادی کو بروئے کار لانے کےلئے مدد فراہم کرتاہے۔دوپٹہ، چادر، حجاب ہماری تہذیب کا آئینہ ہے، عورت کی عصمت کی پہچان ہے اور یہ ہرگھر کے اسلاف کی روایت ہے، قرآن کریم میں لکھ دیاگیا کہ ”عورتیں اپنے سینوں پہ اوڑھنیاں ڈال لیں“ توپھر اسکے بعد اس سے انکار یا مختلف استعماری قوتوں کی یلغار کیا معنی، ہمارے مذہب اور تہذیب کو ہدف بنانا اور مسلمان بچیوں کے سروں سے حجاب کھینچنا کہاں کا انصاف ہے، عبائے اور نقاب کو حجاب اور سرڈھانپنے کو دہشت گردی سے جوڑنے کی شدید سازش کی جارہی ہے۔ وہ معاشرے جو بے حیائی کا سرچشمہ ہیں وہ حجاب اور دوپٹے کے تقدس کو کیا جانیں؟گلستان میں پھول کھلتے ہیں تو مالی انکی مکمل حفاظت کرتاہے ، پانی،دھوپ، روشنی، سایہ ہر چیز وقت پہ ضرورت کے تحت ان کو مہیا کرتاہے تاکہ وہ اپنے جوبن پہ آئیں اس کے چمن کو خوبصورت بنائیں انکی مہک سے اس کا باغ معطر ہو اسی طرح سے عورت بھی دنیا کے چمن کا پھول ہے اس کی حفاظت گھر والے اس طرح کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ زندگی بھر مہکے اور اس پر کسی کی ایسی بری نگاہ نہ پڑے کہ وہ مرجھا جائے۔ عورت جہاں محبت کی علامت ہے وہاں اسکی عصمت اور حیا بھی خاندان کا زیور ہوتی ہے جس طرح ایک عورت اپنے بھائی باپ، بیٹے اور شوہر کے ساتھ باہر نکلنے میں خود کومحفوظ سمجھتی ہے اسی طرح جب اسے کبھی تنہا اس کو چادر وحجاب میں لپٹ کر نکلے تو اسی حفاظت کا احساس اسے ہوتاہے، گویا حجاب اسے زمانے کی بری نگاہوں سے اسے بچاتاہے،
عورت خوبصورتی اور کشش کا سرچشمہ ہے اگر وہ خود اس کی حفاظت نہیں کرتی اور بے پردہ ہوکر یا ایسا لباس پہن کر باہر نکلتی ہے جس سے اسکی نمائش ہو تو وہ عورت کی عظمت کے مینار سے پست ہوجاتی اور کسی بھی نامساعد حالات کی خود بھی اتنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے جتنا کہ معاشرہ۔حجاب کوئی سماجی یا روایتی رویہ نہیں ہے یہ مذہبی اور خاندان نظام کی ناموس ہے، اسی دوپٹے اور حجاب کے ساتھ مسلمان خواتین ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھ لیں کیا دوپٹہ ان کی ترقی میں حائل تھا؟ کیا بے نظیر بھٹو جو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں کیا دوپٹے نے ان کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلئے کام کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی؟ کیا مسز عبدالستار ایدھی کے سرڈھانپنے نے مستحقین کی امداد کرنے میں کوئی مشکل پیدا کی؟ آج بھی ہماری یونیورسٹیز، سکول اورکالجز میں طالبات حجاب لے کر آتی ہیں اور الحمدللہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی حجاب میں رہتے ہوئے چاہے وہ عبایا ہو دوپٹہ ہو سکارف ہو چادر دنیا کے مختلف کونوں میں جاکر کامیابی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتیں اور پاکستان کی پہچان بنتی ہیں،آج تو پہلے کی نسبت حجاب کرنے کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ہی عورت کی عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہواہے، حجاب پر پابندیاں عائد کرنے کی سازش ان اسلام اور تہذیب کے دشمن عناصر کی ہے جو ہمارے مضبوط باحیائ، باوقار خاندانی نظام اور سماجی بہبود کے استحکام کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں۔اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔
عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا…؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔رسال4ستمبر کا دن پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منایاجاتاہے، یہ دن فرانس میں حجاب پہ پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماﺅں نے طے کیاتھا، نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور اسلام سے وابسطہ عوامل اور علامات کو متعصبانہ رویے کا سامنا مغربی میڈیا کی طرف ببانگ دہل ہورہاہے، جبکہ مسلم ممالک کی جانب سے ایک کمزور اور ڈرپوک قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا حالانکہ اسکے جواب میں ایک بھرپور ردعمل کی توقع تھی کیونکہ مسلم ممالک کی قوت ان کا وہ احتجاج ہوتا جو سب ایک ہی ایجنڈے کے تحت کرتے تاکہ ہمارے مذہب کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب اور اقدار کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آتا۔
سورۃ الاحزاب 33 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جواب دیںحذف کریں’’اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت گزاری میں رہنا۔