-ہمالیہ کی وادی میں واقع کے بارے میں برصغیر کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ لکھنو اس خطہ زمین پر بسنے والے شہر کا نام ہے جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔۔ یہاں کے انتہائ با زوق حکمرانوں اور نوابوں اور راجاوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔-وہ اس خطہ پر ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے-اس وقت لکھنو پر سادات کی سو سالہ حکمرانی تھی اور انہوں نے ہی میرے اجداد کو یہاں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی -میرے اجداد قیمتی ہیروں کے تجارت کرتے تھے اور نہائت امارت کے حامل لوگ تھے انہوں نے لکھنو شہر میں وارد ہوتے ہی بڑی بڑی حویلیاں خرید کر اپنے خاندانوں کو اس میں بسا دیا تھا وہ کیونکہ خود بھی سادات کے قبیلے سے تھے اس لئے ان کی شاہی دربار میں خوب پذیرائ ہوئ تھی -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی-ہر حویلی کے پچھلے حصے میں پائیں باغ لازمی ہوتا تھا ساتھ ہی حویلی کے پائیں باغ میں موٹے رسے کا جھولا -پائیں باغ کے بلکل آخر کے ایک کونے میں کنواں لازمی ہوا کرتا تھا جس کی منڈیر پر چمڑے کی بالٹی ہوتی تھی اور کنوئیں کے اوپر ایک کھانچے میں وہ بالٹی موٹی رسی سے بندھی ہوتی تھی -
ساون بھادوں کے آتے جاتے موسموں میں بیسن کے پکوانوں کی خوشبو -ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں میں منوں پھل اور اناج اترتے دیکھنا گھروں میں نوکروں کی ریل پیل کی گہما گہمی -صبح 'صبح گھر کی شادی شدہ خواتین ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بناو سنگھار پر توجہ دیتی تھی اس سنگھار میں بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے پہننا تو جیسے شادی شدہ عورت پر واجب تھا -اس پر سے آنکھوں میں کاجل یا سرمے کی بہار-زیادہ تر سرمہ یا کاجل گھر میں بنایا جاتا تھا اور حویلی سے کچھ فاصلے پر ہاتھی یا ہاتھیوں کے رہنے کے بڑے بڑے کشادہ اور اونچی چھتوں والے مسکن ہوتے تھے جہاں وہ اپنے فیل بانوں کے ہمراہ رہا کرتے تھے -اور شاہی دربار سے جب بلاوہ آتا تھا فیل بان ہاتھیوں کو قیمتی ہو دج اور اس کے زیور سے آراستہ کر کے حویلی کے دروازے پر لا کر کھڑا کرتے تھے اور جب مرد حضرات ہاتھی پر سوار ہوجاتے تب فیل بان ان کو لے کر روانہ ہو جاتا -بڑی بوڑھیا ں سفید وائل کے کرتے کے ساتھ سفید غرارہ زیب تن کرتی تھیں -
یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ بیلے اور گلاب کے پھولوں کے گجرے نہ صرف خواتین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ ان کی شادی شدہ زندگی میں بھی ایک خوشگوار رومانوں رنگ بھرنے کا سبب بنتے ہیں -لیکن یہ سب کچھ باہر کی دنیا سے مخفی رکھا جاتا تھا عورتوں کو کھلے بندوں باہر نکلنے کی ہر گز آزادی نہیں تھی-اگر کبھی آس پڑوس کے گاوں میں جانا ہوتا تھا توحویلی کے آخری سرے پر ڈیوڑھی ہوتی جہاں برقع پوش خواتین جمع ہوتی تھی اور پردے دار بگھیاں آ کر رکتی ہیں اور خواتین ان بگھیوں جا کر بیٹھتی تھیں -گھر کی لڑکیوں بالیوں کو چوڑیا ں پہنانے منہیارن آیا کرتی تھی کسی دن انہی بگھیوں پر کپڑے کے بے شمار تھان آجایا کرتے تھے-اگر گھر میں شادی کا موقع آتا تو یہ تھان بہترین کمخواب اور زربفت کے ہوتے تھے-یعنی سونے اور چاندی کے تاروں کی آمیزش کے ساتھ بنایا ہوا قیمتی کپڑاہوتا تھا-پان کھانے کا رواجان کے لوازمات میں لونگ، الائچی، سونف اور مصری بھی شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ چھالیہ کترنے کے لئے ”سروتہ“ اور پیک تھوکنے کے لئے ”اگال دان“ بھی مغلوں ہی کی ”ایجاد“ تسلیم کی جاتی ہے۔
ہندوستان میں اس کا قدیم نام ”پٹارہ“ یا ”پٹاری“ تھا۔ چوں کہ یہ رواج سب سے پہلے راجستھان و مارواڑ کی راجپوت ریاستوں میں رائج ہوا تھا اور وہیں اسے یہ نام عطا کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے باشندے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، ان میں پاندان کو آج بھی پٹاری ہی کہا جاتا ہے۔لفظ ”پاندان“ مغلوں کا رائج کردہ ہے۔ لفظ ”دان“ فارسی میں کسی بھی چیز یا علم کو محفوظ یا نصب رکھنے والی اشیاءیا افراد کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً، اگر دان، شمع دان، گل دان، تاریخ دان اور نفسیات دان وغیرہ۔ چناچہ مغلوں کی براہ راست عمل داری میں شامل شہروں اور دیگر مسلم ریاستوں میں ”پٹاری“ کی جگہ لفظ ”پاندان“ رائج ہوگیا۔ایک طرف گھر آئے مہمان کو پیش کرنا مہمان نوازی کی علامت ہوا کرتا تھا ۔پان کی گلوری رواج پا گِئ میں جب زرا بڑی ہوئ تو دادی جان کا حقّہ بھرنے کی زمّہ داری میری ہو گئ یقین جانئے حقّہ کی چلم میں بھری جانے والی تمباکو کی مہک میرے دماغ میں گھس کر ڈیرہ جما لیتی تھی اور میرا دل پھڑکنے لگتا تھا کہ کاش بس ایک دفع میں بھی حقّے کا کش لے سکوں -لیکن میرا رمان کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکا کیونکہ چھوٹے سے گھر میں یہ جسارت ممکن نہیں تھی-
میں نے ایک بار دادی جان سے پوچھا تھا کہ آپ حقّہ کیوں پیتی ہیں تو دادی جان نے بتایا تھا کہ ان کوشادی کے بعد گھر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی بس سج سنور کراپنی مسہری پر بیٹھ جانا ہوتا تھا-اس جمود والی زندگی سے ان کو صحت کے مسائل لاحق ہوئے تو گھر کی طبیبہ نے حقّہ پینے کا مشورہ دیا اور ساتھ میں بتایا کہ تمباکو پینےسے بہت سے امراض کا علاج ہوتا ہے-یہ خوبصورت کہانیا ں سنتے ہوئے میں تصور کی دنیا میں کھو جایا کرتی تھی جب اپنے اجداد کے قصے اپنی نانی جان یا دادی جان کی زبان سے سنتی تھی -پھر کچھ کچھ شعور آتے ہوئے میرا دل ان کہانیوں سے اوبھنے لگا اور میں سوچنے لگی کہ میں اس کھوئ ہوئ میراث کو کیسے حاصل کر سکتی ہوں -لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئ اونچی اڑان اڑتی محض سولہ برس کی عمر میں میری شادی ہو گئ -اور چوہا پہاڑ کے نیچے آ گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں