ہفتہ، 16 مارچ، 2024

فارسی شاعر فردوسی


 ویسے تو شاعری دنیا کی بے شمار زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں-ہر شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں -لیکن فردوسی نے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کو اپنی شاعری میں عکس بند کیا اس کی نظیر کم ہی کم شعراء میں نظر آتی ہے -ایران کے مشہور  حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔

 فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ان کے شاعرانہ  مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے  ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں  شاہنامے کے بعض اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔  اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔

 وہ  ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا،۔ )نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شروع کیا تھا۔  جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی نظام غروضی سے  پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو  گھیر  لیا  تھا،  خوشحالی کی جگہ افلاس  نے لے لی تھی۔اسی اثنا میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔محمود غزنوی میں فردوسی کی آمد-فردوسی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی لازوال تخلیق سے نہ صرف فارسی زبان بلکہ پوری فارسی ثقافت اور تاریخ کو امر کر دیا۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ایرانی عوام کے ساتھ ان کے جذبہ صادق کی جھلک ملتی ہے بلکہ انھیں بھی اپنی کام کی اہمیت کا بخوبی علم تھا کہ وہ کس قد اہم دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔

چنانچہ خود فردوسی نے کہا کہ کہ انھوں نے شاہ نامہ کی تصنیف میں بہت رنج و مصیبت اٹھائی لیکن 30 سالوں کی محنت کے نتیجے میں انھوں نے اپنی فارسی میں عجم کو زندہ کر دیا۔یہ شخص سنہ ۹۴۰عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گذر گئے۔  فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نےا قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کار عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی،۔ فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے

اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا    سلطان نے    فردوسی  ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔ لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاری شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر محمود غزنوی کو اپنی کوتاہی کا احساس ہوا تو اس نے دوبارہ پوری ۶۰ ہزار اشرفیاں فردوسی کو روانہ کیں لیکن ایک دروازے سے اشرفیاں لانے والے داخل ہو رہے تھے اور دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ قبرستان جا رہا تھا

بعد میں یہ پوری رقم محمود غزنوی نے فردوسی کے مزار اور اس کی املاک کے پر خرچ کی ۔ 

1 تبصرہ:

  1. ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر