شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہےایران کے مشہور حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی جو فردوسی کے نام سے مشہور ہیں ، ۱۰؍ ویں صدی کے نامور فارسی شاعر ہیں جو ۹۴۰ء میں ایران کے علاقے خراسان کے شہر طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شاہکار ’’شاہنامہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔ شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے میں یا کارنامہ ہے۔ شاہنامہ، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً۱۰۰۰ء میں لکھی۔
اس شعری مجموعہ میں ’’عظیم فارس‘‘ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ۶۰؍ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر ہومر کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں فردوسی کے والد زمیندار تھے۔ یوں تو فردوسی کی ابتدائی زندگی کے تعلق سے زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بھی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا انتقال ۳۷؍ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر ’’شاہنامہ‘‘ میں موجود ہے۔ فرودسی کا انتقال ۸۰؍ سال کی عمر میں ۱۰۲۰ء میں ہوا۔ بعض روایات میں ان کا سالِ وفات ۱۰۲۵ء اور عمر ۸۵؍ سال بھی ملتی ہے۔ فردسی کا مزار فارسی ادب اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے جو پاژ نامی گاؤں کے قریب میں واقع ہے۔ فردوسی کا مزار گزشتہ ہزار برسوں سے اب تک بار بار قدرتی آفات اور تاریخی واقعات کا شکار ہوا ہے مگر اسے ہر بار از سرنو تعمیر کیا گیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں فردوسی کے نئے مزار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس کا رقبہ ۳۰؍ ہزار میٹرکیوبک ہے۔ نامور ایرانی شاعر کے مزار کے قریب ایک میوزیم اور لائبریری بھی موجود ہیں ۔
یوں تو دربار غزنی میں چارسو شعراء موجود تھے لیکن جو شہرت وعظمت اُن میں سے شاہنامہ کے خالق فردوسی کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ فارسی شاعر فردوسی ایران کی تاریخ اور داستان کو زندہ کرنے والا اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے والا ایران کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ علم شعر تاریخ اور اخلاق کے اعتبار سے فردوسی عہد غزنویہ کی تمام ادبیات کا محور نظر آتا ہے،اس لئے اس کو اگرفردوسی عہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
( فردوسی کی حالات زندگی۔)
اُس کا شاعر انہ لقب فردوسی اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں لیکن اس کے نام اور اس والد کے نام پر تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے. فردوسی علاقہ طوس میں طاہران کے قریب ایک گاؤں ریگبار میں پیدا ہوئے ۔وہاں ان کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن تیموری شہزادہ بایسنفر مرزا نے جو شاہنامہ کا مقدمہ لکھا ہے، اُس میں فردوسی کے گاؤں کا نام شاداب رقم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلم ہے کہ فردوسی طوس کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ یہ وہی مردم خیز خطہ ہے جس نے امام غزالی جیسے محقق طوسی اور نظام الملک جیسے نامور عالم پیدا کیے۔
فارسی شاعر فردوسی کی تاریخ پیدائش نہ تو روایتوں کے ذریعے اور نہ ہی شاہنامہ کے زریعے سے پتہ چل سکی لیکن یہ بات ختمی طور پر کہی جاتی ہے کہ شاہنامہ 1009 عیسوی میں مکمل ہوا کیونکہ خود فردوسی کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے۔
( شاہنامہ لکھنے کے محرکات۔ )
شاہنامے کے بعد اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔ اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔ وہ طاہران کے ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخر شاہنامہ مکمل ہوگیا، اس کی تیاری میں اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔
( شاہنامہ کی تکمیل۔ )
نظام غروضی سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے خود ہی شاہنامہ لکھنا شرووع کیا تھا۔ فارسی شاعر فردوسی کے اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو گھیر لیا تھا، خوشحالی کی جگہ افلاس نے لے لی تھی۔اسی اثنائ میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔
تذکرہ نویسوں کا بیان ہے کہ ایک دفعہ محمود ہندوستان کی مہم سے واپس آرہا تھا اور راستے میں کوئی ہندوستانی راجہ کا قلعہ تھا، محمود نے راجہ کو پیغام بھیجا کہ حاضر ہوکر اطاعت بجا لائے۔ راجہ کے جواب میں دیر ہوئی تو محمود نے اپنے وزیر حسن مہمندی سے کہا اگر جواب ہماری منشائ کے مظابق نہ ہوا تو حسن مہمندی نے بے ساختہ طور پر کہا ۔
اگر خیز بکام من آید جواب ہمیں گر زو میدان افرا سیاب
( شعر سننے پر محمود کا رد عمل۔)
محمود نے سنا تو پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے اس میں شجاعت اور مردانگی نظر آتی ہے۔ حسن نے جواب دیا کہ یہ شعر اُس بد نصیب کا ہے جس نے پچیس سال محنت کرکے شاہنا مہ لکھا لیکن دربار غزنویہ سے محروم و نا مراد لوٹا ۔ محمود نادم ہوا اور کہا کہ غزنی پہنچ کر مجھے یاد کرانا ۔حسن مہمندی نے غزنی پہنچ کر محمود کو یاد دلایا اور ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کو بھجوادی گئی لیکن جب اُس کے شہر میں انعام ایک دروازے سے داخل ہوا تو دوسرے دروازے سے فارسی شاعر فردوسی کا جنازہ شہر سے باہر نکل رہا تھا۔ بالا آخر محمود کا یہ انعام فردوسی کی بیٹی کو پیش کیا گیا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ محمود نے حکم دیا کہ اس رقم سے فردوسی کے نام پر کاروان سرائے بنادی جائے۔بعض تذکرہ نویسوں کے بیان کے مطابق فردوسی کی وفات 1040ئ میں ہوئی۔
( فردوسی کی وطن پرستی۔ )
فردوسی محب وطن شاعر تھے، ایران کی سرزمین سے اُسےبے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ ایران کے لئے ہر چیز قربان کرنا چاہتا تھا، اس کا مقام دربار غزنویہ کے دوسرے شعراء سے مختلف ہے۔ اگر کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے فردوسی کو پیشکش کی تھی کہ شاہنامہ کا ایک شعر لکھنے کیلئے وہ انہیں سونے کی ایک اشرفی دیں گے۔ لیکن فردوسی نے کہا کہ شاہنامہ کے مکمل ہونے پر انہیں پوری رقم ایک ساتھ ادا کی جائے۔ شاہنامہ مکمل ہونے پر محمود غزنوی نے انہیں ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے مگر جس سے سکے بھجوائے گئے تھے ا س نے خیانت کی اور اس طرح فردوسی، محمود غزنوی سے بد ظن ہوگئے۔ حقیقت معلوم ہونے پر سلطان نے انہیں دوبارہ ۶۰؍ ہزار سونے کے سکے بھجوائے لیکن جب ان کا کارواں طوس میں داخل ہوا ، اسی وقت لوگ فردوسی کا جنازہ قبرستان لے کر جارہے تھے جن کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوچکی تھی۔
منور رانا کا پیدائشی نام سید منور علی ہے، وہ سید انور علی کے ہاں 26 نومبر 1952 کو بھارت کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ کالج، رائے بریلی میں جاری رہا، کچھ سال بعد مزید تعلیم کے لیے انھیں لکھنو بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہُوا، قیامِ لکھئنو کے دوران انھوں نے یہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں، لکھنو شہر میں کچھ سال کی عارضی سکونت کے بعد والد کے روزگار کے پیشِ نظر کلکتہ منتقل ہونا پڑا، جہاں 1968میں محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اورگریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ شہر کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لیا۔منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے، ان کی سوچ کو نیا رنگ دینے میں لکھنو کے ماحول کا خاص اثر رہا، خاص طور پر ان کے ادب نواز، محبت پرور دادا سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہدِ طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے، جس سے ان کو بہت سے شعرا کے اشعار ازبر ہو جاتے۔ منور رانا کی شاعری کا بنیادی موضوع غزل ہے، جس میں ماں جیسی عظیم ہستی کی عظمت پر ان کے سیکڑوں اشعار کسی اور شاعر کے ہاں پڑھنے کو نہیں ملتے۔ ان کا یہ شعر مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
تقریبا ستر کی دہائی میں میدانِ شعر وسخن کے ابتدائی دنوں میں ان کا نام ’’ منور علی آتش‘‘ رکھتے ہوئے پروفیسر اعزاز افضل کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوئے، ان سے اکتسابِ فیض پاتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی اور خوش اخلاقی کا بھرپور مظاہرہ کیا، انھوں نے اپنی پہلی نظم سولہ سال کی کم عمری میں کہی جو اُس وقت محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی، لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ماہنامہ ’’ شہود‘‘ میں شایع ہوئی، یہ رسالہ اپنے عہد کے معیاری رسالوں میں سے ایک تھا۔کچھ برس تک منور علی آتش کے نام سے مشہور ہونے پر نازش پرتاپ گڑھی اور راز الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدل کر ’’ منور علی شاداں‘‘ رکھ لیا یوں اس نئے ’’ شاداں‘‘ تخلص سے غزلیں کہنے لگے، لیکن چند ہی ماہ کے بعد والی آسیؔ جیسے شخصیت سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے اور ان کے مشورے سے 1977میں ایک بار پھر اپنا تخلص بدل کر ’’ منور رانا ‘‘ بن گئے۔
منور رانا کی شاعری میں اکثر موضوعات نئی نسل کا المیہ، وصال و ہجر، مردہ ضمیروں کا مرثیہ، زندگی کے نشیب و فراز، سدا بہار موسم کی طرح ملنے والے دُکھ، خزاں کی ستم ظریفی، روز مرہ کے جھگڑے اور وسائلِ زندگی سے محرومیاں ہیں۔ منور رانا نے شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری میں بھی جوہر دکھائے، ان کا اپنا تخلیق کردہ ڈرامہ 1971 میں ’’جئے بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے کلکتہ کے ہومیو پیتھی کالج میں منعقدہ ڈرامہ مقابلے میں نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور یوں یہ ڈرامہ انعام یافتہ قرار پایا۔اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری بھی کی، جس پر معلوم ہُوا کہ ’’ بالخصوص سجن کمارکی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسندکی گئی کہ اس ڈرامہ کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے، بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندرکی ایک فلم کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہُوا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم اور اداکاری کا آسیب اتر گیااور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لیے میدان شاعری میں آ گئے ۔‘‘منور رانا کی تصانیف میں بدن چوپال، چوڑی ٹوٹ جاتی ہے، بغیر نقشے کے مکان، کہو ظلِ الٰہی سے، چہرے یاد رہتے ہیں، سخن سرائے، سفید جنگلی کبوتر، جنگلی پھول، مہاجر نامہ نمایاں ہیں۔
یاد رہے کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے بہت سے رشتے دار پاکستان ہجرت کر گئے تھے، لیکن ان کے والدنے بھارت کو ہی اپنا مسکن بنائے رکھا۔ ان کے کلام میں ہجرت کا دکھ بھی پایا جاتا ہے جس پر وہ غم زدہ اور افسردہ رکھتے ہوئے اپنے اس دُکھ کر ہمیشہ تازہ رکھتے۔ منور رانا صاحب کی شاعری ، صرف عشق و عاشقی کے موضوع پر ہی نہیں، شخص اور بنگلہ دیش کی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں