۔زرا سوچئے کیا آ ج سے پہلے کے زمانے میں ہارٹ اٹیک کی کوئ خبر ملتی تھی-کم از کم میرے اپنے پاس ایسی کوِ خبر کبھی نہیں تھی کہ میں کہہ سکتی کہ فلاں کو ہارٹ اٹیک ہو ا ہےپھر آج کے دور میں یہ مرض اتنا عام کیوں ہو گیا تو سب سے پہلے میں اپنے شوہر کے بارے میں بتاوں گی کہ ہم سب گھر والے چین سکون کی محنت کش زندگی گزار رہے تھے -میں گھر پر ٹیوشن پڑھاتی تھی اور شوہر حق حلال کی کمائ میں مگن تھے لیکن ایک دن یوں ہوا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ چھوٹے صاحبزادے نے سیاست کی خا رزار وادی میں قدم رکھ دیا ہے-یہاں تک بھی سب معمول کے مطابق تھا لیکن ایک شام ہمارے گھر پر کچھ نوجوان آ ئے اور انہوں نے کہا آج رات بیٹے کو کہیں کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا جائے کیونکہ آج کی رات مہار نوجوانوں پر بھاری رات ہے میں نے فوراً بیٹے کو گھر سے دور اپنی والدہ کے گھر بھیج دیا لیکن اس خبر نے میرے شوہر کو ہارٹ اٹیک سے دوچار کیا میں ایمر جنسی میں ان کو لے کر بھاگی اور صبح کی پہلی خبر تھی کہ کراچی کے اٹھائیس نوجوانوں کی لاشین خون میں لت پت سڑکوں پر پھینک دی گئیں تھیں-اس سے آگے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کراچی کی خونی تاریخ رقم کی جاتی رہی ہے-میرے وطن کے ہر' ہر حاکم نے اپنا حصّہ بقدر جثّہ کراچی کی غارت گری میں ڈالا ہے -اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرونی حالات کا اثر اندرونی دباو کی صورت میں شدت سے نکلتا ہے 'چاہے وہ ہارٹ اٹیک ہو
‘‘ انسان کے جسم میں دل کا کردار بہت عظیم ہے۔قلب، انسانی بدن میں تمام اعضا کا سردار ہے، جسم کے تمام اعضا کا دارومدار اسی پر ہے، اسی لیے حضو نے امت کو دل کے بارے میں ہدایات دیں۔ یہ دل کیا ہے؟ یہ پٹھوں کے مجموعے پر مشتمل ایک ایسا عضو ہے جو انسانی بدن کو مسلسل خون پہنچاتاہے۔ یہ انسانی تن میں موجود خون کے نظامِ گردش کے درمیان واقع ہے۔ یہ پورانظام، خون کی رگوں کے ایک جال پر مشتمل ہے۔ خون‘ دل سے پورے انسانی بدن کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا پھر واپس دل کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دل کا نظام ایسا رکھا ہے کہ اس میں غور کرتے ہوئے انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق دل‘ ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ دل‘ہر منٹ میں تقریباً پانچ یا چھ ہزار کوارٹرگیلن خون انسانی بدن کے مختلف اعضا تک پہنچاتا ہے۔ انسان کے جسم میں یہ واحد عضو ہے جس کی حرکت پر انسانی زندگی کی بقا ہے۔اس کا حجم انسانی مٹھی جتنا ہے، جسے انسان آسانی سے اپنے ہاتھ میں تھام سکتا ہے۔
یہ دل ہی ہے اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو ظاہری و باطنی امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ظاہری مرض تب ہوتا ہے، جب دل کی نالی تنگ ہوجاتی ہے، جس کے سبب خون کا بہاؤ کم ہوجاتاہے، نتیجے کے طور پرسینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور سانس مشکل سے آنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑجاتا ہے، جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ صرف امریکا میں سالانہ ایک ملین افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ظاہری مرض کا علاج ڈاکٹر اور حکیم کرتے ہیں، جن پر انسان ہزاروں روپے پانی کی طرح بہادیتے ہیں۔ دل کے باطنی امراض بھی بہت ہیں، جن میں اکثر انسان مبتلا ہیں، جن کا احساس بھی انسان کو کم ہی ہوتا ہے، جیسے: کینہ، بغض، عداوت، دشمنی، حسد اور تکبر ہے۔ یہ ایسے امراض ہیں جو بغیر توبہ اور اصلاح کے ختم نہیں ہوتے۔ حدیث مبارک سے بھی یہی مراد ہے۔اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا ان امراض میں مبتلا ہے۔ آج پوری دنیا سکون و راحت کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے، آرام و سکون کیسے حاصل ہوگا؟ جبکہ ہم نے اپنے دل کو بغض، عداوت، حسد، کینہ اور تکبر جیسے گناہ سے جو بھر رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا ـ: ’’إیاکم والحسد فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب‘‘۔ ’’ اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ! اس لیے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔‘‘ یہ حسد ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے، ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے
، شیطان تکبر کی وجہ سے برائی اور نافرمانی میں مبتلا ہوا۔دوسری چیزآدمی کا لالچ ہے،کیونکہ آدم نے لالچ کی وجہ سے پھل کھایا اور جنت سے نکالے گئے۔تیسری چیز آدمی کا حسد ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے پہلا خون حسد کی وجہ سے ہوا۔ قابیل نے ہابیل سے حسد کیا کہ اس کو وہ چیز کیوں مل رہی ہے جو مجھے نہیں مل رہی، اس نے چاہا کہ یہ اس کونہ ملے، اسی بات نے اُسے پہلے خون پر آمادہ کیا۔ یہ حسد بنیادی چیز ہے جوبہت سارے برے اعمال، اخلاقی برائیوں اور انسانوںکے ساتھ تعلقات میں اپنا کردار ادا کرتی ہے تو ان سب سے ہمیں بچنا چاہیے۔ دل تو ابتداہی سے بالکل خالی پیالے کی طرح تھا، ہم نے خود اس میں لذات کا اضافہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کی جگہ ہی نہیں رکھی۔ دل کا سکون حاصل کرنے کے لیے ایک ملک سے دوسرے ملک سیروتفریح کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ آج کا مسلمان،بیہودہ فلموں اورحیا باختہ گانوں میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے، اسی کو اپنا مقصد ِحیات بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس میں سکون رکھاہی نہیں۔ سکون اور اطمینان قلب وہاں ڈھونڈنا چاہیے جہاں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘۔(الرعد:۲۸) ’’خبردار! ( سن لو) اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں‘‘
خدا کی ذات کو یاد کرنے والے کتنے لوگ چین و آرام کی زندگی پاتے ہیں، ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ سکون و اطمینان اللہ کے گھر اور وہاں ہوتاہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی جاتی ہے۔توآئے اللہ پاک کی زات سے منسلک ہو جائیے اور اپنے دل کی راحت کا انتظام اپنے اعمال سے کیجئے اسی میں دنیا اور عقبیٰ کی راحت ہےہم اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اور دوسروں کی مدد کرکے سکون حاصل کر سکتے ہیں اور ڈپریشن سے باہر نکل سکتے ہیں۔انسان اپنے جسم کو خوراک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے اور جسم کو آرام دینے کے لئے طرح طرح کی آسائشیں تلاش کرتا ہے، لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس جسم کے اندر ایک روح بھی ہے،جو اس کے جسم کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے اور اس روح کی بھی ایک غذا ہے اور جب تک اس روح کو غذا نہیں ملے گی،تب تک جسم کو آرام پہنچانے کی ہر کوشش بے کار ثابت ہوجائے گی،جس کا مشاہدہ ہر کوئی باآسانی کرسکتا ہے کہ انسان نفس کی تسکین کے لئے جتنی جدوجہد کیوں نہ کرلے، وہ سکون و آرام سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتاہے، لیکن جب انسان رب کی تابعداری شروع کردیتا ہے تو اس کی روح کو اتنا ہی چین و قرار آتا چلاجاتا ہے۔
بے شک یاد خدا انسان کے فلاح دارین کی کنجی ہے
جواب دیںحذف کریں