ہندوستان کا عظیم الشان د ریائے گنگا مغربی ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے اور اپنے سفر طے کرتا ہوا جیسے ہی مغربی بنگال کی جانب آتا ہے۔ ایک ہی وقت میں یہ دو الگ الگ دریاؤں،دریائے پدما اور دریائے ہگلی میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دریائے پدما بنگلہ دیش سے گزر کر خلیج بنگال اور دریائے ہگلی میں گرتا ہے،شاہجہاں کے عہد میں ایسٹ انڈیا کمپنی دریائے ہگلی کے پاس ایک کوٹھی بنا چکی تھی۔ اورنگزیب کے عہد میں انہوں نے 3 گا ؤں بھی خرید لئے جو ہگلی کے نسبت دریائے گنگا کے کنارے سے اور بھی قریب تھے۔ ان میں سے ایک کا نام کالی گھاٹ تھا یہ وہی مقام تھا جو اب کلکتہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 1690ء میں انگریزوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا اور فورٹ ولیم اس کا نام رکھا۔فرانسیسی بھی ہند میں انگریزوں کیساتھ ساتھ ہی آئے تھے انہوں نے بھی اپنے مقامات تجارت بنا رکھے تھے۔ ان میں سے بڑے بڑے یہ تھے ''مہی‘‘ مغربی ساحل پر، ''پانڈی چری‘‘ مدراس کے جنوب میں مشرقی ساحل پر، ''چندرنگر‘‘ بنگال میں کلکتہ سے کوئی 20 میل کے فاصلے پر۔لیکن کمپنی کو اب دریا کے دوسری جانب بھی اپنی تجارت کو وسعت دینا تھا جس کے لئے ہاؤڑا برج کا منصوبہ زیر غور آیا ۔
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعہ، 14 نومبر، 2025
دریائے ہگلی پر ہاؤڑا برج کیوں بنایا گیا
جمعرات، 13 نومبر، 2025
منوڑہ بیچ پرقوم کا سرمایہ تین ڈاکٹرز ڈوب گئے
کراچی میں منوڑہ ہمالیہ ساحل پر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے طلبہ کی پکنگ سانحہ میں تبدیل ہو گئی، 7 طلبا سمندر میں ڈوب گئے تھے، تین کو بچا لیا گیا، تین کی میتیں نکال لی گئیں جبکہ ایک طالب علم ابھی تک مسنگ ہے مستقبل کے 15 ڈاکٹروں کا ایک گروپ پکنک کے لئے منوڑہ کے ساحل گیا تھا، جہاں تند وتیز لہریں 7طلبا کو بہا کر لے گئیں، ساحل پر موجود ریسکیو عملے نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین طلبا کی لاشیں نکال لیں۔جاں بحق ہونے والوں میں احمد کاشف، اشارب منیر اور اشہد شامل ہے جو میڈیکل کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے، لاشیں جب گھر پہنچیں تو جوان میتیں دیکھ کر گھر اور محلے میں کہرام مچ گیا۔ترجمان یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی پکنک ہاکس بے ساحل پر تھی، جس 150 طالبعلم شامل تھے، جبکہ حادثے کا شکار ہونے والے طلبہ (15 کے گروپ میں) ذاتی حیثیت میں منوڑہ تفریح کے لئے گئے تھے، مذکورہ 15 طلبا کی پکنک کے بارے میں کالج انتظامیہ یا پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کو مطلع نہیں کیا تھا، ہاکس بے پر پکنک منانے والے طلبہ بخیریت واپس کالج پہنچ گئے جبکہ منوڑہ پر یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا۔
فائنل ائیر ڈی 26 بیج کے ہی 15 طلباء نے اپنے طور پر پی این ایس ہمالیہ منوڑا پر پکنک منانے کا پروگرام ایک شہید طالب علم کے والد کے ذریعے ترتیب دیا تھا جہاں یہ طلبا کالج انتظامیہ کو مطلع کیے بغیر پکنک منانے گئے تھے ۔فائنل ائیر ڈی 26 بیج کے مذکورہ طلباء نے بڑے گروپ سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر پی این ایس ہمالیہ منوڑا پر پکنک منانے کا پروگرام ترتیب دیا تھا ۔کالج انتظامیہ نے 150 طلبا وطالبات کو سیکیورٹی گارڈز اور تمام تر احتیاطی اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے روانہ کیا جبکہ مذکورہ 15 طلباء کی پکنک کے بارے میں کالج انتظامیہ یا پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کالج کو مطلع نہیں کیا گیاتھا ۔ہاکس بے پر پکنک منانے والے طلبہ بخیریت واپس کالج پہنچ گئے ہیں جبکہ منوڑہ پر یہ افسوس ناک حادثہ پیش آیا جب دوپہر کے وقت کسی بے رحم موج نے ایک طالب علم کو اپنی گرفت میں لے لیا تو باقی طلبہ اسے بچانے کے لیے بھاگے جس کے نتیجے میں احمد کاشف ،محمد اشارب منیر اور سید اشہد عباس فاطمی ڈوب کر شہید ہو گئے جن کی میتیں سول اسپتال کے مردہ خانے لائی گئیں ۔
تین طلبہ کو ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں دو طلبہ رضوان اور ربیع کو طبی امداد دے کر داخل کر لیا گیا جبکہ ایک طالب علم عبدالمجید کو میڈیکل آئی سی یو منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے زیر علاج طلبہ کی طبی نگہداشت کے لیے خصوصی ہدایت جاری کر دی ہیں اور سول اسپتال کی انتظامیہ ان کی خصوصی نگہداشت کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے شہید ہونے والے طلبہ کے لیے جمعہ کے روز تعزیتی اجلاس معین آڈیٹوریم میں صبح 9 بجے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ منوڑہ پر یہ افسوس ناک حادثہ پیش آیا جب دوپہر کے وقت کسی بے رحم موج نے ایک طالب علم کو اپنی گرفت میں لے لیا تو باقی طلبہ اسے بچانے کے لیے بھاگے جس کے نتیجے میں احمد کاشف ،محمد اشارب منیر اور سید اشہد عباس فاطمی ڈوب کر شہید ہو گئے جن کی میتیں سول اسپتال کے مردہ خانے لائی گئیں ۔ تین طلبہ کو ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں دو طلبہ رضوان اور ربیع کو طبی امداد دے کر داخل کر لیا گیا جبکہ ایک طالب علم عبدالمجید کو میڈیکل آئی سی یو منتقل کر دیا گیا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے زیر علاج طلبہ کی طبی نگہداشت کے لیے خصوصی ہدایت جاری کر دی ہیں اور سول اسپتال کی انتظامیہ ان کی خصوصی نگہداشت کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے شہید ہونے والے طلبہ کے لیے جمعہ کے روز تعزیتی اجلاس معین آڈیٹوریم میں صبح 9 بجے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔اںتدائی طور پر حادثے کا شکار ہونے والے طالبعلموں نے بتایا ہے کہ وہ بیچ پر بال سے کھیل رہے تھے کہ بال بال سمندرکی لہروں کے ساتھ چلی گئی جسے لینے کے لیے ایک طالب علم گیا توتیز اور اونچی لہروں کی نذر ہو گیا،باقی طالب علم اسے بچاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے۔ ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ حادثے میں جاں بحق تین طالب علموں کی میتیں سول ٹراما سینٹر لائی گئیں تھی جبکہ تین 3 متاثرہ طالب علموں کولایا گیا تھا جن میں سے 2 طالب علموں کی حالت خطرے سے باہر اور ایک کی حالت تشویشناک ہے۔پولیس کے مطابق متوفی طالبعلم اشارب منیر نے اپنے والد کے ذریعے ہٹ بک کروایا تھا۔
بدھ، 12 نومبر، 2025
شہنشاہ نیرؔو ' کیا رومن ایمپائر کا بد بخت بادشاہ تھا؟
دسمبر 37 بعد از مسیح میں لوسیئس ڈومیٹیئس آہنوباربس خاندان میں پیدا ہونے والا نیرؔو روم کا پانچواں شہنشاہ بنا۔ روم کے پہلے چار شہنشاہوں-اَوگُوستُس ، تِبریس، کیلیگولا اور کلَودیُس-کے ساتھ مل کرنیرؔو نےروم کے اُس شاہی سلسلے کو تشکیل دیا جو آج جولیو-کلاؤڈین شاہی سلسلہ کہلاتا ہے۔ نیرؔو کو اس کے چچا کلَودیُس نے اپنا جانشین ہونے کے لیے گود لیا اور 54 بعد از مسیح میں کلَودیُس کی موت کے بعدنیرؔو 16 سال کی عمر میں سب سے کم عمر شہنشاہ بن گیا۔ اُس کا دور حکومت 68بعد از مسیح تک تقریباً چودہ سال رہاجب اُس نے 30 سال کی عمر میں خودکشی کر لی تھی ۔نیرؔ و نے مسیح کے مصلوب ہونے کے تقریباً دو دہائیوں بعد تخت سنبھالا ۔ اگرچہ مسیحیت ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھی لیکن اِس دوران مسیحیت بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ درحقیقت، نئے عہد نامے کی ستائیس میں سے تقریباً چودہ کتابیں مکمل یا جزوی طور پرنیرؔو کی سلطنت کے دوران قلمبند ہوئی تھیں ۔ نیرو کے دور حکومت کے دوران ہی پولس رسول کو روم میں نظربند رکھا گیا تھا
(60-63بعداز مسیح)جہاں اُس نے افسس،فلپی،کلسے کی کلیسیا کے نام اور فلیمون کے نام خط لکھے تھے ۔ نیرؔو وہ "قیصر" تھا جس سے پولس رسول نے قیصریہ میں قید کے دوران اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران انصاف کی درخواست کی تھی (اعمال 25باب 10-12آیات)۔نیرؔو کے دورِ حکومت کے ابتدائی سالوں میں رومی سلطنت کی ثقافتی زندگی میں نمایاں طور پر ترقی ہوئی ۔اُس کے مشیروں بالخصوص پریٹورین پریفیکٹ بروس اور مشہور رومی فلسفی سینیکا کی رہنمائی کی بدولت اُسکی بادشاہی کے ابتدائی سالوں کے دوران روم نےایک مستحکم حکومت برقرار رکھی۔نیرو کو فنون لطیفہ سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ ایک ماہر گلوکار اور موسیقار تھا۔ وہ کھیلوں کے مقابلوں سے بھی لطف اندوز ہ ہوتا تھا اوراُس نے رتھوں کی کئی دو ڑوں میں حصہ لیا، حتیٰ کہ یونان میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کے دوران ایک دوڑ میں جیتا بھی تھا ۔تاہم نیرؔو کی میراث کوئی خوشگوار نہیں ہے۔ گوکہ اُس کے دورِ حکومت کاآغاز بڑی ا عتدال پسندی اور مثالی حالت میں ہوا تھالیکن اُس کا اختتام نہایت ظلم اور بربر یت کے ساتھ ہوا یرومی سلطنت کے زوال کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سیاسی بدعنوانی، اقتصادی مسائل، اور فوجی حملے شامل ہیں
اُس نے ہر اُس شخص کو قتل کرنا شروع کر دیا جو اُس کی راہ میں رکاوٹ بنا؛ اُس کے متاثرین میں اُس کی اپنی بیوی اور والدہ کے ساتھ ساتھ اُس کا سوتیلا بھائی بریٹینیکس - شہنشاہ کلَودیُس کا سگابیٹا بھی شامل تھا۔جولائی 64 بعد از مسیح میں روم میں بڑے پیمانے پر آگ لگی جو چھ دن تک جاری رہی۔روم کے چودہ میں سے صرف تین اضلاع آگ سے ہونے والے نقصان سے بچ سکے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اِس آگ کاذمہ دارنیرؔو ہو سکتا ہےحالانکہ اِس میں اُسکا ملوث ہونا واضح طور پر ثا بت نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ نیرؔو نے توجہ کو خود سے ہٹانے کے لیے اُس آگ کا الزام مسیحیوں پر لگا دیا جن میں سے بہت سے لوگوں کو اُس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر ڈالا۔ تاریخ دان ٹیسی ٹس اُس ظلم و بربریت کو یوں بیان کرتا ہے: "جانوروں کی کھالوں میں سلے ہوؤں کو کتوں نے پھاڑ ااور ہلاک کیا یا اُنہیں کیلوں سےصلیب پر لٹکایا گیا یا سور ج غروب ہونے پر اُنہیں شعلوں کی نذر کیا گیاتاکہ رات کو روشنی کے لیے مشعلوں کا کام دیں"۔ اپنی شام کی محفلوں کو روشن کرنے کے لیےنیرؔو کا مسیحیوں کو انسانی مشعل کے طور پر استعمال کرنا ایک واضح حقیقت ہے ۔ بنیادی طور پرنیرؔو کو ابتدائی مسیحیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے باعث زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔
نیرؔو کے دور حکومت کا اختتام تصادم سے بھرپورتھا۔ رومی رہنماؤں کے درمیان تناؤ بالآخر اتنا بڑھ گیا کہ پریٹورین محافظوں نے اپنی وفاداری نیرؔو سے گالبا کو منتقل کر دی اور رومی سینٹ نے نیرؔو کو عوام الناس کا دشمن قرار دے دیا۔ نیرؔو کو روم سے بھاگ جانے پر مجبور کیا گیا ۔ اپنے بعد کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کے باعث نیرؔو جولیو-کلاؤڈین شاہی سلسلے میں آخری شہنشاہ ثابت ہوا۔ نیرؔو کی موت کے بعد خانہ جنگی کا ایک مختصر دور آیا جس کے بعد ایک ہی سال میں چار شہنشاہوں کا عروج و زوال دیکھنے کو ملا۔ یہ پُر آشوب سال "چار شہنشاہوں کا سال"کہلاتا ہے ۔’’روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ اس ضرب المثل کا نیرو ایک حقیقی کردار ہے ،جو روم کا پانچواں اور Julio-Claudin خاندان کا آخری شہنشاہ تھا۔ نیرو کے بارہ میں تاریخ دانوں نے لاتعداد کہانیاں بیان کی ہیں ۔کچھ نے لکھا ہے کہ اس نے اقتدار کے لئے اپنی والدہ، بھائی اور دونوں بیویوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب نیرو کو رومن کابینہ کی جانب سے عوام دشمن قرار دیا گیا ،تو اس دکھ میں اس 9 جون 68ء میں اس نے خود کشی کر لی :
کراچی کے مضافاتی جزائرکی اہمیت'پارٹ 2
اس وقت وفاقی حکومت نے ایک وفاقی ادارے، پورٹ قاسم اتھارٹی، کو عمار کے ساتھ دونوں جزیروں کی خرید و فروخت کا معاہدہ کرنے کا مکمل اختیار دیا تھا حالانکہ، محمد علی شاہ کے مطابق، اس ادارے کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ یہاں کی زمین کا مالک ہے۔تاہم عمار اور پورٹ قاسم اتھارٹی میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان فشر فوک فورم، سندھی دانشور اور سیاستدان رسول بخش پالیجو کی تنظیم عوامی تحریک اور اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو پیچھا ہٹنا پڑا اور عمار کے ساتھ کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ چند روز پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ٹویٹس میں سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھیجے گئے ایک خط کی نقل شائع کی تاہم سندھ حکومت نے بعد ازاں اس دعوے کی تردید کر دی اور کہا کہ اس کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ جزائر سندھ حکومت کی ملکیت ہیں جن سے وہ کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوگی
وفاقی حکومت کو ان کے استعمال کی اجازت اس شرط پر دی گئی کہ وفاقی حکومت یک طرفہ طور پر اور صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر وہاں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ وہاں بسنے والے ماہی گیروں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔اس تنازعے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے کابینہ کے ایک تازہ ترین اجلاس میں اس خط میں دی گئی اجازت کی تنسیخ ہی کر دی ہے اور آئینی اور قانونی حوالے دے کر کہا ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی دونوں صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں جنہیں آئین میں تبدیلیاں کیے بغیر وفاقی حکومت کی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے کراچی اور بلوچستان کےسنگم پرواقع چرنا آئی لینڈ کو پاکستان کا دوسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے پر حکومت بلوچستان کوسراہا، بلوچستان کی کابینہ نے بدھ 4 ستمبر 2024 کو ہونے والے اپنےاجلاس میں چرنا آئی لینڈ کو دوسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے کی منظوری دی۔حکومت بلوچستان نےجون 2017میں استولا جزیرے کو پہلا مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا تھا چرنا جزیرہ، استولاجزیرے کی طرح پاکستان کے ان محدود سمندری علاقوں میں سے ایک ہے جہاں مرجان کا مسکن ہے اور اسے حیاتیاتی تنوع کا ہاٹ اسپاٹ کہا جاتاہے۔
کراچی کے قرب میں واقع چرنا آئی لینڈماہی گیری کا ایک اہم مقام سمجھاجاتاہے جہاں سندھ و بلوچستان کے ماہی گیر بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں اور ان ہی وجوہات کے سبب چرنا جزیرے میں بسنے والے سمندری ماحولیاتی نظام اور متنوع آبی حیات کو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔دیگر عوامل میں پاورپلانٹس، سنگل پوائنٹ مورنگ، قریبی علاقے میں آئل ریفائنری کے ساتھ دیگر تفریحی سرگرمیاں بھی شامل ہیں ڈبیلو ڈبیلوایف کا خیال ہے کہ چرنا آئی لینڈ کو محفوظ سمندری علاقہ قرار دینے کا اعلان اس بات کویقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہےا ڈبیلوڈبیلوایف پاکستان بلوچستان کی کاوشوں کو سراہتا ہے اور دوستین جمالدینی، سیکریٹری جنگلات وجنگلی حیات اور شریف الدین بلوچ، چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف کے کردار کا معترف ہے کہ اس چرنا کو اس مقام دینا ان کی مخلصانہ کاوشوں کی مرہون منت ہے۔اس جزیرے کو اسکوبا ڈائیونگ، اسنارکلنگ، کلف چمپنگ اور جیٹ اسکیئنگ سمیت دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہاہے
پاکستان حیاتاتی تنوع کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہے اور اس کے گلوبل بائیوڈائیورسٹی فریم ورک کے مطابق سن 2030 تک سمندر کا 30 فیصد حصہ محفوظ علاقہ قرار دینے کی ضرورت ہے۔ماہی گیری گزرے دنوں سے آج تک ماہی گیروں کے لئے اچھی آمدن کا وسیلہ رہا ہے۔ لیکن جو قوم مچھلیاں پکڑتی ہے ان پر ترقی کا کوئ راستہ کیوں نہیں کھلتا ہے اس پر حکومت کو ضرور سوچنا چاہئے -آپ آج بھی اگر ان ماہی گیر بستیوں میں جائیں گے تو ان کی بیچارگی، معصومیت اور غریبی پر آپ کو رحم آئے گا۔ مجھے ریڑھی میان، ابراہیم حیدری یا بابا جزیرے کی گلیوں میں چلتے ہوئے یہ کبھی نہیں لگا کہ یہ بستیاں کراچی کے آنگن میں بستی ہیں۔ ڈائریکٹر،بائیوڈائیورسٹی پروگرامز ڈبیلو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق حکومت بلوچستان کی طرح وفاق اور سندھ حکومت بھی نئے سمندری محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرکے انہیں ایم پی اےکرنے کا اعلان کرے۔ناقص منصوبہ بند ، ترقیاتی سرگرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہم اپنے سمندری وسائل کھو رہے ہیں، ڈبلیو ڈبیلو ایف پاکستان کے تیکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق چرنا جزیرہ مرجان کی 50 سے زائد ،مچھلیوں کی 250 سے زائد اقسام کا اہم مرکز ہے۔محفوظ سمندری علاقہ قرار دینے سے یہاں کی آبی حیات کو لاحق خطرات سے بچانے کا اہم اور تعمیری اقدام ہے
تحریر انٹر نیٹ کی مدد سے تلخیص کی ہے
کراچی کے مضافاتی جزائر کی اہمیت پارٹ1
ماہی گیروں کی زبان میں درخت کے بڑے تنے کو بھنڈ کہا جاتا ہے جس کی مناسبت سے، اس جزیرے کا نام بھنڈار پڑا۔حیرت اس پر ہوتی ہے کہ نمکین پانی کے درمیان واقع اس جزیرے پر میٹھے پانی میں پیدا ہونے والے درخت موجود ہیں جس میں دیوی اور بھو سمیت کئی اقسام کے درخت اور پودے ہیں۔مچھیروں کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ ایک ڈیلٹا ہے جو دریائے سندھ کے میٹھے پانی سے وجود میں آیا جس کی وجہ سے یہاں میٹھے پانی میں اگنے والے درخت اور میٹھے پانی کی ریت پائی جاتی ہے۔کراچی کی ترقی میں ماہی گیر کہاں ہے؟ روشنیوں کا شہر بننے سے ماہی گیروں کو کچھ نہیں ملا ،جزائر پر جدیدشہربننے سے بھی کچھ نہیں ملے گا،چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم -جزیرے پر بہت بڑی سرما یہ کاری کے بعد ماہی گیروں کو جزیرے کے قریب بھی نہیں جانے دیاجائے گا،،جس کے نتیجے میں لاکھوں ماہی گیروں کا روزگار ختم ہوجائے گا،ناخدا طارق کچھی مچھلیاں پکڑ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں،جزیرہ کو جدید زہر بن جانے سےماہی گیروں کومچھلیاں پکڑنے کی اجازت نہیں ہوگی ، ہم چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو بھی تعلیم اور روزگار ملے، حکومت روزگار دے توکوئی اعتراض نہیں ،ماہی گیر عبداللہ نے بتایا کہ مینگروز کے جنگلات میں ایک لاکھ سے زائد درخت تھے ، ناجانے کیوں 30 ہزار سے زائد کاٹ دیئے گئے ،
ان جنگلات کے نیچے جھینگے اور مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے،درخت کٹنے سے مچھلیاں چلی جائینگی ، انچارج کوسٹل میڈیا سینٹر-دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد ماضی کے تجربات کی بنیاد پر قائم رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کی حکومتیں عوام کی فلاح وبہبود کا دعویٰ کرکے کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو عوام کی بھرپور تائید ملتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے عوام کو عموماً حکمرانوں کی جانب سے دھوکہ ہی کا سامنا کرنا پڑایہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت حکومتی فیصلوں پر تحفظات کا شکار ہوجاتی ہے۔گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پاکستان آئی لینڈ ڈ ویلپمنٹ اتھارٹی 2020ء جاری کیا ۔اس صدارتی آرڈینیس کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قائم جزائر کو وفاق کے زیرانتظام لیاگیا ۔وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ کچھ جزائر کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر سیاحتی مقام میں تبدیل کیاجائے جس سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی جبکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا تاہم سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ وفاق اس طرح سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ مقامی ماہی گیرماضی کے تجربات کی بنیاد پر وفاق کی حمایت کرنے سے گریزاں ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی تاریخ کے محقق گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’سندھ کے سمندری جزائر‘ میں کراچی کے لاپتہ ہونے والے سمندری جزائر، زمین پر قبضوں، ماہی گیروں کے وسائل محدود ہونے اور سہولیات کے فقدان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔کراچی کی سمندری حدود میں صرف 9 ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں۔دنیا اخبار کی ۔ابراہیم حیدر ی ،مبارک ولیج ،ریڑھی گوٹھ سمیت متعدد علاقوں پر مشتمل شہر قائد کی ساحلی پٹی تقریباً129کلومیٹر طویل ہے۔لاکھوں افراد ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ ہماری ٹیم ابراہیم حیدری سے بذریعہ کشتی ایک گھنٹے کا سفر کرکے بھنڈار جزیرے پہنچی ۔ دوران سفر سمندر کے اطراف حسین نظارے ،دور تک پھیلے مینگروز کے جنگلات ،رنگ برنگے جھنڈوں سے اپنی انفرادیت جتانے والے جہاز اور چھوٹی چھوٹی کشتیاں دلفریب لگ رہی تھیں، مچھیروں کے بچے تک تھرموپول کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سمندر کے کافی اندر کشتی چلارہے تھے۔ ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ ان کے جزائر پر اگر جدید شہر آباد ہوگئے تو ان کا روزگار ان سے چھن جائے گا تاہم محسوس ہوا کہ نوجوان ماہی گیروں کے خیالات مختلف ہیں ،اگرحکومت سیاحتی مراکز قائم کرکے ہمیں روزگار دیتی ہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔
شہر کراچی سے صرف 8کلومیٹر دور بھنڈار جزیرہ نہایت دلکش مناظر سے معمور ہے تھا جو آنکھوں میں چکا چوند کیے دیتا ہے۔نیلے سمندر کے درمیان 12000ایکٹر پر موجود بھنڈار جزیرے پر قدرتی نباتات اور چمکیلی ریت نہایت خوبصورت نظر آتی ہے۔کوسٹل میڈیا سینٹر کے انچارج کمال شاہ نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے دریائے سندھ کا میٹھا پانی آتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ہریالی ہے اور ریت چکنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس جزیرے پر جنگلی کتے،بھیڑیے ،سانپ اور نیولے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ماہی گیر شکار کیلئے یہاں آتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں قیام کرتے ہیں۔ہم نے بھی ایک ماہی گیر کی جھونپڑی میں کچھ دیر گزاری جبکہ جزیرے پر دور دراز تک سفر کیلئے اونٹ کا سفر کیاجاتا ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین یقین دلایا کہ وزیراعظم کراچی کے 2جزائر پر نئے شہر آباد کرنا چاہتے ہیں ، بھنڈار جزیرہ سندھ کا ہی حصہ رہے گانئے شہر آباد ہونے سے ڈیڑھ لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گے۔ سالانہ 50لاکھ تک سیا ح آ ئیں گے جس سے سندھ کو ہی ریونیو ملے گا۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم شوکت عزیز نے جب بھنڈار اور ڈنگی کو دبئی کی ایک نجی تعمیراتی کمپنی عمار کو بیچنے کی منظوری دی تھی'۔ لیکن ماہی گیر ان سہانے خوابوں پر یقین کرنے تیار نہیں ہیں
تحریر انٹر نیٹ سے تلخیص کی ہے
پیر، 10 نومبر، 2025
نیویارک کے نو منتخب مئر ظہران ممدانی کی شریک حیا ت-راما دواجی
خوش لباسی میں ملبوس مسکراتا چہرہ بلا کی زہین بڑی بڑی آنکھیں سرو قد متناسب سراپا -یہ ہیں نیویارک کے نو منتخب مئر ظہران ممدانی کی شریک حیا ت -میری حیاتی :یعنی میری زندگی کا ٹائٹل ظہران ممدانی نے ایک عوامی اجتماع میں اپنی اہلیہ راما دواجی کو دیتے ہوئے کہا اس لمحے اور ہر لمحے میرے ساتھ رہنے کے لیے ان سے بہتر کوئی نہیں"امریکہ میں پہلے منتخب مسلمان گورنر اور انکی شریک حیات فرسٹ لیڈی آف نیویارک -نیویارک کی نئی خاتون اول نو منتخب میئر ظہران ممدانی کی اہلیہ راما دواجی اگرچہ انتخابی مہم کے دوران منظرِ عام سے دور رہیں لیکن ممدانی کی مہم کی شناخت واضح کرنے اور سوشل میڈیا پر موجودگی کو مضبوط بنانے میں اُن کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ انہوں نے اپنے شریک حیات کے لئے خود بہترین رنگوں کے امتزاج سے پمفلٹ اور پوسٹرز تیار کئے ۔در حقیقت راما دواجی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ ہیں، ٹیکساس میں ان کا بچپن گزرا دبئی میں تعلیم حاصل کی اور صرف 4 برس قبل نیویارک منتقل ہوئیں۔اس غیر روایتی پس منظر کے باوجود وہ اب نیویارک سٹی کی تاریخ کی کم عمر ترین فرسٹ لیڈی بن گئی ہیں۔اگرچہ ممدانی کی انتخابی مہم کے دوران راما دواجی عوامی تقریبات، مباحثوں اور انتخابی جلسوں سے دور رہیں
خاموش اطاعت گزاری اور وفا شعاری لڑکی کے زیور ہوتے ہیں ناول
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد
مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...