جمعہ، 14 نومبر، 2025

دریائے ہگلی پر ہاؤڑا برج کیوں بنایا گیا

 

ہندوستان کا عظیم الشان           د  ریائے گنگا مغربی ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے اور اپنے سفر طے کرتا ہوا جیسے ہی  مغربی بنگال  کی جانب آتا ہے۔ ایک ہی وقت میں یہ دو الگ الگ دریاؤں،دریائے  پدما اور دریائے ہگلی  میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دریائے پدما بنگلہ دیش سے گزر کر خلیج بنگال اور دریائے ہگلی میں گرتا ہے،شاہجہاں کے عہد  میں   ایسٹ  انڈیا کمپنی  دریائے ہگلی کے پاس ایک کوٹھی بنا چکی تھی۔ اورنگزیب کے عہد میں انہوں نے 3 گا          ؤں  بھی خرید لئے جو ہگلی کے نسبت دریائے گنگا کے کنارے سے اور بھی قریب تھے۔ ان میں سے ایک کا نام کالی گھاٹ تھا یہ وہی مقام تھا جو اب کلکتہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 1690ء میں انگریزوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا اور فورٹ ولیم اس کا نام رکھا۔فرانسیسی بھی ہند میں انگریزوں کیساتھ ساتھ ہی آئے تھے انہوں نے بھی اپنے مقامات تجارت بنا رکھے تھے۔ ان میں سے بڑے بڑے یہ تھے ''مہی‘‘ مغربی ساحل پر، ''پانڈی چری‘‘ مدراس کے جنوب میں مشرقی ساحل پر، ''چندرنگر‘‘ بنگال میں کلکتہ سے کوئی 20 میل کے فاصلے پر۔لیکن کمپنی کو اب دریا کے دوسری جانب بھی اپنی تجارت کو وسعت دینا تھا جس کے لئے ہاؤڑا برج کا منصوبہ زیر غور آیا ۔ 


مغربی بنگال اس وقت کے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔1860 میں بنگال کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے کولکاتا اور ہاوڑو ضلع کو جوڑنے کے لئے ہگلی ندی کے اوپر برج بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔اس سلسلے میں متعدد تجاویز پیش کی گئی لیکن کسی وجہ سے تجاویز سرد خانے کی زینت بن گئیں۔1880 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک بار دونوں ضلع کو جوڑنے کے لئے برج بنانے کے لئے سرگرم ہوئی۔ ۔1943 میں برٹش حکومت نے ایک ایسا پل بنانے کا فیصلہ کیا جو تاریخ کا حصہ بن سکے۔تاہم کمپنی کا بنایا ہوا یہ پل  پوری دنیا میں مشہور ہے  ۔ 1943ء میں تعمیر شدہ اس پل کا اصل نام نیا ہاوڑہ پل (New Howrah Bridge) تھا کیونکہ اسے ہاوڑہ اور کولکاتا کو ملانے والے قدیم پیرک تختہ پل (Pontoon bridge) کی جگہ بنایا گیا تھا۔14 جون 1965ء کو اس کا نام تبدیل کر کے نوبل انعام یافتہ بھارتی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر رابندر سیتو (Rabindra Setu) رکھ دیا گیا، تاہم اسے اب بھی ہاوڑہ پل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔


 ہاوڑہ پل کی خصوصیت یہ ہے کہ دریائے ہگلی پر واقع 1،500 فٹ لمبے اس پل میں ایک بھی ستون نہیں ہیں ۔ بغیرکسی ستون کے یہ پل ندی کے دونوں کناروں کے سہارے کھڑا ہے۔ہدوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے


۔اس کے تمام پارٹس ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑا ہوا  ہے۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز کے  پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں



 


1 تبصرہ:

  1. دریائے ہوگلی (Hooghly River) جسے روایتی طور پر گنگا بھی کہا جاتا ہے بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں دریائے گنگا کا ایک معاون دریا ہے جو تقریباً 260 کلومیٹر (160 میل) طویل ہے یہ ضلع مرشداباد کے مقام پر گنگا سے بطور نہر علاحدہ ہوتا ہے۔ کولکاتہ شہر دریائے ہوگلی کے کنارے بسا ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر