ماہی گیروں کی زبان میں درخت کے بڑے تنے کو بھنڈ کہا جاتا ہے جس کی مناسبت سے، اس جزیرے کا نام بھنڈار پڑا۔حیرت اس پر ہوتی ہے کہ نمکین پانی کے درمیان واقع اس جزیرے پر میٹھے پانی میں پیدا ہونے والے درخت موجود ہیں جس میں دیوی اور بھو سمیت کئی اقسام کے درخت اور پودے ہیں۔مچھیروں کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ ایک ڈیلٹا ہے جو دریائے سندھ کے میٹھے پانی سے وجود میں آیا جس کی وجہ سے یہاں میٹھے پانی میں اگنے والے درخت اور میٹھے پانی کی ریت پائی جاتی ہے۔کراچی کی ترقی میں ماہی گیر کہاں ہے؟ روشنیوں کا شہر بننے سے ماہی گیروں کو کچھ نہیں ملا ،جزائر پر جدیدشہربننے سے بھی کچھ نہیں ملے گا،چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم -جزیرے پر بہت بڑی سرما یہ کاری کے بعد ماہی گیروں کو جزیرے کے قریب بھی نہیں جانے دیاجائے گا،،جس کے نتیجے میں لاکھوں ماہی گیروں کا روزگار ختم ہوجائے گا،ناخدا طارق کچھی مچھلیاں پکڑ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں،جزیرہ کو جدید زہر بن جانے سےماہی گیروں کومچھلیاں پکڑنے کی اجازت نہیں ہوگی ، ہم چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو بھی تعلیم اور روزگار ملے، حکومت روزگار دے توکوئی اعتراض نہیں ،ماہی گیر عبداللہ نے بتایا کہ مینگروز کے جنگلات میں ایک لاکھ سے زائد درخت تھے ، ناجانے کیوں 30 ہزار سے زائد کاٹ دیئے گئے ،
ان جنگلات کے نیچے جھینگے اور مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے،درخت کٹنے سے مچھلیاں چلی جائینگی ، انچارج کوسٹل میڈیا سینٹر-دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد ماضی کے تجربات کی بنیاد پر قائم رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کی حکومتیں عوام کی فلاح وبہبود کا دعویٰ کرکے کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو عوام کی بھرپور تائید ملتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے عوام کو عموماً حکمرانوں کی جانب سے دھوکہ ہی کا سامنا کرنا پڑایہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت حکومتی فیصلوں پر تحفظات کا شکار ہوجاتی ہے۔گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پاکستان آئی لینڈ ڈ ویلپمنٹ اتھارٹی 2020ء جاری کیا ۔اس صدارتی آرڈینیس کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قائم جزائر کو وفاق کے زیرانتظام لیاگیا ۔وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ کچھ جزائر کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر سیاحتی مقام میں تبدیل کیاجائے جس سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی جبکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا تاہم سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ وفاق اس طرح سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ مقامی ماہی گیرماضی کے تجربات کی بنیاد پر وفاق کی حمایت کرنے سے گریزاں ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی تاریخ کے محقق گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’سندھ کے سمندری جزائر‘ میں کراچی کے لاپتہ ہونے والے سمندری جزائر، زمین پر قبضوں، ماہی گیروں کے وسائل محدود ہونے اور سہولیات کے فقدان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔کراچی کی سمندری حدود میں صرف 9 ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں۔دنیا اخبار کی ۔ابراہیم حیدر ی ،مبارک ولیج ،ریڑھی گوٹھ سمیت متعدد علاقوں پر مشتمل شہر قائد کی ساحلی پٹی تقریباً129کلومیٹر طویل ہے۔لاکھوں افراد ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ ہماری ٹیم ابراہیم حیدری سے بذریعہ کشتی ایک گھنٹے کا سفر کرکے بھنڈار جزیرے پہنچی ۔ دوران سفر سمندر کے اطراف حسین نظارے ،دور تک پھیلے مینگروز کے جنگلات ،رنگ برنگے جھنڈوں سے اپنی انفرادیت جتانے والے جہاز اور چھوٹی چھوٹی کشتیاں دلفریب لگ رہی تھیں، مچھیروں کے بچے تک تھرموپول کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سمندر کے کافی اندر کشتی چلارہے تھے۔ ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ ان کے جزائر پر اگر جدید شہر آباد ہوگئے تو ان کا روزگار ان سے چھن جائے گا تاہم محسوس ہوا کہ نوجوان ماہی گیروں کے خیالات مختلف ہیں ،اگرحکومت سیاحتی مراکز قائم کرکے ہمیں روزگار دیتی ہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔
شہر کراچی سے صرف 8کلومیٹر دور بھنڈار جزیرہ نہایت دلکش مناظر سے معمور ہے تھا جو آنکھوں میں چکا چوند کیے دیتا ہے۔نیلے سمندر کے درمیان 12000ایکٹر پر موجود بھنڈار جزیرے پر قدرتی نباتات اور چمکیلی ریت نہایت خوبصورت نظر آتی ہے۔کوسٹل میڈیا سینٹر کے انچارج کمال شاہ نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے دریائے سندھ کا میٹھا پانی آتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ہریالی ہے اور ریت چکنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس جزیرے پر جنگلی کتے،بھیڑیے ،سانپ اور نیولے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ماہی گیر شکار کیلئے یہاں آتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں قیام کرتے ہیں۔ہم نے بھی ایک ماہی گیر کی جھونپڑی میں کچھ دیر گزاری جبکہ جزیرے پر دور دراز تک سفر کیلئے اونٹ کا سفر کیاجاتا ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین یقین دلایا کہ وزیراعظم کراچی کے 2جزائر پر نئے شہر آباد کرنا چاہتے ہیں ، بھنڈار جزیرہ سندھ کا ہی حصہ رہے گانئے شہر آباد ہونے سے ڈیڑھ لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گے۔ سالانہ 50لاکھ تک سیا ح آ ئیں گے جس سے سندھ کو ہی ریونیو ملے گا۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم شوکت عزیز نے جب بھنڈار اور ڈنگی کو دبئی کی ایک نجی تعمیراتی کمپنی عمار کو بیچنے کی منظوری دی تھی'۔ لیکن ماہی گیر ان سہانے خوابوں پر یقین کرنے تیار نہیں ہیں
تحریر انٹر نیٹ سے تلخیص کی ہے
آپ آج بھی اگر ان ماہی گیر بستیوں میں جائیں گے تو ان کی بیچارگی، معصومیت اور غریبی پر آپ کو رحم آئے گا۔ ریڑھی میان، ابراہیم حیدری یا بابا جزیرے کی گلیوں میں چلتے ہوئے یہ کبھی نہیں لگے گا کہ یہ بستیاں کراچی کے آنگن میں بستی ہیں۔
جواب دیںحذف کریں